ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے خالد نے (جو حارث کے بیٹے ہیں) بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کے یہاں تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجور اور گھی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ گھی اس کے برتن میں رکھ دو اور یہ کھجوریں بھی اس کے برتن میں رکھ دو کیونکہ میں تو روزے سے ہوں، پھر آپ نے گھر کے ایک کنارے میں کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھی اور ام سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کے گھر والوں کے لیے دعا کی، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ میرا ایک بچہ لاڈلا بھی تو ہے (اس کے لیے بھی تو دعا فرما دیجئیے) فرمایا کون ہے انہوں نے کہا آپ کا خادم انس (رضی اللہ عنہ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا اور آخرت کی کوئی خیر و بھلائی نہ چھوڑی جس کی ان کے لیے دعا نہ کی ہو۔ آپ نے دعا میں یہ بھی فرمایا اے اللہ! اسے مال اور اولاد عطا فرما اور اس کے لیے برکت عطا کر (انس رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ) چنانچہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ اور مجھ سے میری بیٹی امینہ نے بیان کیا حجاج کے بصرہ آنے تک میری صلبی اولاد میں سے تقریباً ایک سو بیس دفن ہو چکے تھے۔ ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے حمید نے بیان کیا، اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کے ساتھ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1982]
أعيدوا سمنكم في سقائه وتمركم في وعائه فإني صائم ثم قام إلى ناحية من البيت فصلى غير المكتوبة فدعا لأم سليم وأهل بيتها فقالت أم سليم يا رسول الله إن لي خويصة قال ما هي قالت خادمك أنس فما ترك خير آخرة ولا دنيا إلا دعا لي به قال اللهم ارزقه مالا وولدا
ردوا هذا في وعائه وهذا في سقائه فإني صائم ثم قام فصلى بنا ركعتين تطوعا فقامت أم سليم وأم حرام خلفنا قال ثابت ولا أعلمه إلا قال أقامني عن يمينه على بساط
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1982
حدیث حاشیہ: پچھلی حدیث میں حجاج کا ذکر ہے جو بصرہ میں75ھ میں آیا تھا۔ اس وقت حضرت انس ؓ کی عمر کچھ اوپر اسی برس کی تھی، 93ھ کے قریب آپ کا انتقال ہوا۔ ایک سو سال کے قریب ان کی عمر ہوئی۔ یہ سب آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے خاص اپنی صلب کے 125بچے دفن کئے پھر دیگر لواحقین کا اندازہ کرنا چاہئے۔ اس حدیث سے مقصد باب یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ ام سلیم ؓ کے گھر روزہ کی حالت میں تشریف لے گئے اور آپ ﷺ نے ان کے ہاں کھانا واپس فرما دیا۔ اور روزہ نہیں توڑا۔ ثابت ہوا کہ کوئی شخص ایسا بھی کرے تو جائز درست بلکہ سنت نبوی کے مطابق ہے۔ یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ بعض مواقع ایسے بھی آسکتے ہیں کہ وہاں روزہ کھول دینا جائز ہے۔ بعض ایسے کہ رکھنا بھی جائز ہے۔ یہ ہر شخص کے خود دل میں فیصلہ کرنے اور حالت کو سمجھنے کی باتیں ہیں۔ إنما الأعمالُ بالنیاتِ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1982
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 608
´جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دونوں کیسے کھڑے ہوں؟` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو ان کے گھر والوں نے گھی اور کھجور پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے (کھجور کو) اس کی تھیلی میں اور اسے (گھی کو) اس کے برتن میں لوٹا دو کیونکہ میں روزے سے ہوں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں دو رکعت نفل نماز پڑھائی تو ام سلیم (انس رضی اللہ عنہ کی والدہ) اور ام حرام رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ ثابت کہتے ہیں: میں تو یہی جانتا ہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داہنی طرف چٹائی پر کھڑا کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 608]
608۔ اردو حاشیہ: ➊ بعض اوقات نفل نماز کی جماعت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت رسانی کے ارادے سے نماز پڑھائی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز کی تعلیم کے لئے ایسے کیا ہو تاکہ عورتیں بھی قریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا مشاہدہ کر لیں۔ (نووی) ➋ جماعت میں دو مرد ہوں تو دونوں کی ایک صف ہو گی، امام بایئں جانب اور مقتدی اس سے دایئں جانب کھڑا ہو گا اور عورت خواہ اکیلی ہو یا زیادہ ان کی صف علیحدہ ہو گی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 608