ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کرتے تھے اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور میری موت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں مقدر کر دے۔ ابن زریع نے روح بن قاسم سے، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے اپنی والدہ سے، انہوں نے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح سنا تھا، ہشام نے بیان کیا، ان سے زید نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا پھر یہی حدیث روایت کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ/حدیث: 1890]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1890
حدیث حاشیہ: اللہ پاک نے حضرت عمر فاروق ؓ کی ہر دو دعاؤں کو قبول فرمایا۔ 26 ذی الحجہ23ھ بدھ کا دن تھا کہ فجر میں آپ امامت کر رہے تھے ظالم ابو لولو مجوسی نے آپ کو زہر آلود خنجر مارا، زخم کاری تھا، چند دن بعد آپ کا انتقال ہو گیا اور یکم محرم24ھ بروز ہفتہ تدفین عمل میں آئی، اللہ پاک نے آپ کی دوسری دعا بھی اس شان کے ساتھ قبول فرمائی کہ عین حجرہ نبوی پہلوئے رسالت مآب ﷺ میں دفن کئے گئے۔ (وذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء و اللہ ذو الفضل العظیم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1890
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1890
حدیث حاشیہ: (1) اس دعا کا پس منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا عمر ؓ شہید کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب حضرت عمر ؓ سے بیان کیا تو آپ نے حسرت بھرے لہجے میں کہا: مجھے شہادت فی سبیل اللہ کیونکر نصیب ہو سکتی ہے جبکہ میں جزیرۃ العرب کے درمیان رہائش پذیر ہوں؟ میں خود جہاد نہیں کرتا اور اللہ کے بندے ہر وقت میرے آس پاس رہتے ہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے: مجھے شہادت کیوں نہیں نصیب ہو سکتی؟ اگر اللہ نے چاہا تو مجھے انہی حالات میں وہ شہادت سے نوازے گا۔ اس کے بعد آپ نے وہ دعا کی جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ آپ کی یہ دعا سن کر آپ کی صاجزادی ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ فی سبیل اللہ شہید ہوں اور وہ بھی مدینے میں؟ آپ نے فرمایا: اللہ چاہے گا تو یہ دونوں باتیں ہو جائیں گی۔ (2) روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ کی اس عجیب و غریب دعا سے لوگوں کو تعجب ہوتا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ دونوں باتیں کس طرح ہو سکتی ہیں؟ لیکن بدبخت ابو لؤلؤ نے مسجد نبوی کے محراب میں آپ کو زخمی کیا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ دعا کی قبولیت اس طرح مقدر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی دعا کو حرف بہ حرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ مدینہ منورہ میں 26 ذوالحجہ 23ھ بروز بدھ نماز فجر پڑھاتے ہوئے شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجرۂ مبارکہ میں انہیں دفن کیا گیا۔ (فتح الباري: 131/4) اے اللہ! ہمیں بھی اپنے محبوب کے شہر مدینہ طیبہ میں شہادت کی موت نصیب فرما۔ وما ذٰلك علی الله بعزيز وهو علی كل شئي قدير
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1890