ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (والی جگہ) جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض (کوثر) پر ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْمَدِينَةِ/حدیث: 1888]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1888
حدیث حاشیہ: گھر سے مراد حضرت عائشہ ؓ کا حجرہ ہے، جہاں آپ آرام فرما ہیں۔ ابن عساکر کی روایت میں یوں ہے کہ میری قبر اور منبر کے درمیان ایک کیاری ہے جنت کی کیاریوں میں سے۔ اور طبرانی نے ابن عمر ؓ سے نکالا اس میں بھی قبر کا لفظ ہے اللہ پاک نے آپ کو پہلے ہی سے آگاہ فرما دیا تھا کہ آپ اس حجرہ میں قیامت تک آرام فرمائیں گے۔ بیان کردہ مبارک قطعہ حقیقتاً جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ بعض نے کہا اس کی برکت اور خوبی کی وجہ سے مجازاً ایسا کہا گیا یا اس لیے کہ وہاں عبادت کرنا خصوصی طور پر دخول جنت کا ذریعہ ہے۔ منبر کے بارے میں جو فرمایا قدرت خداوندی سے یہ بھی بعید نہیں کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر اس منبر کو دوبارہ مہیا کرکے آپ ﷺ کے لیے رکھ دیا جائے (واللہ أعلم بمرادہ) باب کا مقصد یہاں سکونت مدینہ کی ترغیب دلانا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1888
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1888
حدیث حاشیہ: (1) شارحین نے اس حدیث کے کئی ایک مفہوم بیان کیے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ کے گھر اور منبر کا درمیانی علاقہ نزول رحمت اور حصول سعادت میں جنت کے باغ کی طرح ہے۔ ٭ اس میں عبادت کرنے سے انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ ٭ مذکورہ مقام بعینہ جنت میں منتقل ہو جائے گا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے سکونت مدینہ کی ترغیب دلانا ہے کیونکہ یہ باب بلا عنوان ہے جو پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کے آخر میں ہے: ”میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔ “ اکثر علماء نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ یہ دنیا والا منبر حوض کوثر پر منتقل ہو جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسی معنی کو راجح قرار دیا ہے اگرچہ دیگر کئی معنی بھی بیان کیے گئے ہیں۔ (فتح الباري: 130/4) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حوض کوثر کا پانی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں نصیب کرے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1888
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 643
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت` «. . . 306- وبه: عن عبد الله بن زيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة.“ . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 643]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1195، ومسلم 1390، من حديث مالك به] تفقه: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر (بیت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے لے کر مسجد نبوی کے منبر تک کا حصہ جنت کا حصہ ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 306
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3370
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3370]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ میرے گھرسے مراد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ مبارک ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ہے، اس لیے بعض روایات میں بَیْتِیْ کی جگہ قَبْرِیْ کا لفظ آیا ہے۔ (رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، ) کا معنی یہ ہے کہ یہ ٹکڑا جنت میں منتقل کر دیا جائے گا۔ اس لیے یہاں ذکر وفکر اورعبادت میں مصروف ہونا، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی جگہ کے مقابلہ میں زیادہ نزول رحمت اورحصول سعادت کا باعث ہے۔ وگرنہ عام مفہوم کے اعتبار سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مساجد کو ریاض الجنۃ قرار دیا ہے کیونکہ ایک خالص مسلمان کے لیے ان میں عبادت، دخول جنت کا باعث ہے اور یہ معنی نہیں ہے کہ یہ فی الوقت جنت کا ٹکڑا ہے، اگرچہ بعض نے یہ بھی مراد لیا ہے کہ یہ ٹکڑا جنت سے اترا ہے، اس لیے جنت میں واپس جائے گا۔ کیونکہ دنیا ایک عارضی اورفانی جگہ ہے، اس کی کسی چیز کو دوام واستمرار حاصل نہیں ہے۔ مزید برآں جنت کی صفت تو یہ ہے کہ وہاں نہ بھوک لگے گی نہ پیاس، اور نہ دھوپ ستائے گی اور نہ بر ہنگی ہو گی، جب کہ یہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک اور پیاس لاحق ہوتی تھی اس لیے اس حدیث کو بنیاد بنا کر اور قیاس آرائیوں سے کام لیتے ہوئے اس پر اجماع کا دعوی کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ کعبہ اورعرش سے افضل ہے، اور اس کی بنا پر حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو محض تشنیع اور کفروفسق کا نشانہ بنانا، محض سینہ زوری ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم یا خیرالقرون کے کن ائمہ اور علماء نے اس کی تصریح کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ عرش وکعبہ سے افضل ہے؟ کیا ان ادوار کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت یا پیار ہم سے کم تھا؟ 2۔ میرا منبر حوض پر ہے منبر کے قریب طہارت کا التزام وپابندی، آپ کے حضور حوض کوثر سے سیرابی کا باعث بنے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حوض پر اپنے منبر مبارک پر ہی تشریف فرما ہوں گے، دنیوی منبر کو ہی نیا وجود مل جائے تو اللہ کی قدرت کے سامنے، یہ بھی کوئی نا ممکن نہیں ہےاوریہ جنت سے نیا منبر بھی مراد ہو سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3370
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1195
1195. حضرت عبداللہ بن زید مازنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1195]
حدیث حاشیہ: نیز یہی مسجد نبوی ہے جس میں ایک رکعت ہزار رکعتوں کے برابر درجہ رکھتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری مسجد میں چالیس نمازوں کو اس طرح با جماعت ادا کیا کہ تکبیر تحریمہ فوت نہ ہوسکی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1195
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1196
1196. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کا درمیانی مقام جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور (قیامت کے دن) میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1196]
حدیث حاشیہ: چونکہ آپ ﷺ اپنے گھر یعنی حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں مدفون ہیں، اس لیے حضرت امام بخاری ؓ نے اس حدیث پر ”قبر اور منبر کے درمیان“ باب منعقد فرمایا حافظ ابن حجر ؒ کی ایک روایت میں (بیت) گھر کے بجائے قبرہی کا لفظ ہے۔ گویا عالم تقدیر میں جو کچھ ہونا تھا، اس کی آپ ﷺ نے پہلے ہی خبر دی تھی، بلا شک وشبہ یہ حصہ جنت ہی کا ہے اور عالم آخرت میں یہ جنت ہی کا ایک حصہ بن جائے گا۔ ”میرا منبر میرے حوض پر ہے۔ “ کا مطلب یہ ہے کہ حوض یہیں پر ہوگا۔ یا یہ کہ جہاں بھی میرا حوض کوثر ہو گا وہاں ہی یہ منبر رکھا جائے گا۔ آپ اس پر تشریف فرما ہوں گے اور اپنے دست مبارک سے مسلمانوں کو جام کوثر پلائیں گے مگر اہل بدعت کو وہاں حاضری سے روک دیا جائے گا۔ جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ حضور ﷺ ان کا حال معلوم فرما کر فرمائیں گے۔ سحقا لمن بدل سحقا لمن غیر دوری ہو ان کو جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1196
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7335
7335. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7335]
حدیث حاشیہ: مسجد نبوی میں مذکورہ حصہ جنت کی کیاری ہے یہاں کی نماز اور دعاؤں میں عجیب لطف ہوتا ہے۔ کما جربنا مرارا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7335
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1196
1196. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کا درمیانی مقام جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور (قیامت کے دن) میرا منبر میرے حوض پر ہو گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1196]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کرنے کے بعد یہ عنوان قائم کیا ہے تاکہ اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ مسجد نبوی کے بعض حصے ایک دوسرے سے افضل ہیں۔ عنوان میں قبر کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ حدیث میں لفظ بیت ہے؟ یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک اسی بیت میں ہے۔ بعض روایات میں قبر کا لفظ بھی ہے لیکن یہ روایت بالمعنی ہے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں: حدیث کے مذکورہ الفاظ ہی صحیح ہیں، البتہ بعض راویوں نے روایت بالمعنی کے طور پر بين قبري و منبري کے الفاظ بیان کیے ہیں، حالانکہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان کی تھی اس وقت آپ فوت ہوئے تھے نہ آپ کی قبر مبارک کا وجود ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب صحابۂ کرام ؓ میں آپ کی تدفین کے متعلق اختلاف ہوا تو کسی نے بھی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا۔ اگر یہ الفاظ ان کے علم میں ہوتے تو اس تاریخی مسئلے میں نص صریح کا حکم رکھتے۔ (التوسل والوسیلة،ص: 74)(2) رسول اللہ ﷺ نے اس حصے کو جنت کی کیاری قرار دیا ہے کہ نزول رحمت اور حصول سعادت کے اعتبار سے وہ حقیقی روضۂ جنت کی طرح ہے یا اس لیے کہ اس حصے میں عبادت دخول جنت کا سبب ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے کہ آخرت میں یہ ٹکڑا بعینہٖ جنت میں منتقل ہو جائے گا۔ علامہ عینی نے امام خطابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو شخص اس حصے میں عبادت کا اہتمام کرے گا وہ جنت کے باغوں میں داخل ہو گا اور جو شخص منبر کے پاس عبادت کرے گا وہ جنت میں حوض کوثر سے سیراب کیا جائے گا۔ شارحین نے منبر کے متعلق لکھا ہے کہ بعینہٖ اسی منبر کو حوض کوثر پر لوٹا دیا جائے گا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1196
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7335
7335. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7335]
حدیث حاشیہ: روضہ مبارک، یعنی وہ بقعہ مقدسہ جو جنت کا باغیچہ ہے، اسی طرح جنت میں منتقلی ہو جائے گا۔ ممکن ہے وہاں کوئی نیک عمل کرنا جنت میں جانے کاسبب ہو۔ بہرحال پہلے معنی زیادہ قرین قیاس ہیں۔ اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے منبر تک کی جگہ کی عظمت کا بھی پتا چلتا ہے کیونکہ اس جگہ کو مدینہ کے باقی مقامات پر فضیلت حاصل ہے تو دنیا کے باقی مقامات پر بطریق اولیٰ فضیلت وبرتری حاصل ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7335