ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حکم نے بیان کیا، انہوں نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ(ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی حاضر کیا گیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اسے (اپنے بدن پر) پھیرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (آڑ کے لیے) ایک نیزہ تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 187]
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 187
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: ”وضو کا بچا ہوا پانی“ سے مراد وہ پانی ہے جو وضو کے برتن میں بچ جائے جو پانی وضو کرنے والا استعمال کرے اور اس کے اعضاء سے جو پانی ٹپکے اسے ”مستعمل پانی“ کہا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے کہ لوگوں کے بچے ہوئے وضو کے پانی کو استعمال میں لانا جو بچے ہوئے پانی کو نجس قرار دیتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے فعل کو نقل فرمانے کے بعد حدیث کا ذکر فرمایا ہے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابن شیبہ رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ نے نکالا ہے اس کے ایک طریق میں یہ ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ مسواک کر کے اس کا سرا پانی میں ڈبو دیتے تھے ایسا کرنے سے وہ مستعمل ہو گیا اور جب انہوں نے اپنے گھر والوں کو وضو کرنے کا حکم دیا تو وہ پانی پاک ہوا۔ [ديكهئيے فتح الباري ج1 ص 390]
جہاں تک تعلق ہے باب اور حدیث کا تو باب کے قیام کا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا اور حدیث میں ذکر موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا پھر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے لگے اور بدن پر ملنے لگے۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مستعمل پانی کو صحابہ نے اپنے جسموں پر لگایا، اس سے مراد یہی ہے کہ وضو کا بچا ہوا پانی پاک ہے جب جسموں پر لگایا جانا ثابت ہوا تو اس سے وضو کرنا بھی بالاولیٰ درست ہے۔ کیونکہ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ وضو کا بچا ہوا پانی پاک نہیں ہوتا۔
◈ ابن منیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «قلت: مقصود: ”الرّد على من زعم أن: الماء المستعمل فى الوضؤ لايتطهر به»“[المتواري ص 71] ”میں کہتا ہوں کہ امام بخاری کا مقصد ان لوگوں کا رد ہے جو وضو کا پانی جو استعمال شدہ ہے اس کو پاک تسلیم نہیں کرتے۔“
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وقد استشكل ايراد البخاري له فى هذا الباب المعقود لطهارة الماء المستعمل، واجيب بأنه ثبت ان السوك مطهرللفم . . . .»“[فتح الباري ج1 ص290] ”اور مشکل جانا گیا ہے امام بخاری کا اس باب کے واسطے جو انہوں نے قائم فرمایا ہے کہ جو مستعمل پانی ہے وہ پاک ہے اور جواب دیا گیا ہے مسواک منہ کو پاک کرتی ہے، پھر جب یہ پانی میں ملے اور پھر حاصل کی جائے (اس پانی سے) وضو کو تو ہو گا اس میں استعمال کرنا مستعمل پانی کا وضو کے لیے۔“
◈ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «وتعقب العيني المؤلف بانه لا مطابقة بين الترجمته وهذا الاثر، لان الترجمة فى استعمال فضل الماء الذى يفضل من المتوضي ء، وهذا الاثر هوالوضؤ بفضل السواك . . . .»[ارشاد الساري شرح صحيح بخاري، ج1 ص278] ”علامہ عینی نے تعاقب کیا کہ ترجمۃ الباب اور اثر میں مناسبت نہیں ہے، کیونکہ ترجمۃ الباب میں وضو کرنے والے کا بچا ہوا پانی کو کام میں لانے کے بارے میں اور اثر اس وضو کے پانی پر دلالت کرتا ہے جو مسواک کا بچا ہوا ہو۔ (امام قسطلانی جواب دیتے ہیں کہ) یقیناً مسواک کرنا منہ کی پاکیزگی کا باعث ہے جب کہ وہ پانی میں مل جائے اور پھر اس سے وضو کو حاصل کرنا طہارت کے لئے (تو جب پھر مسواک کے پانی سے وضو درست ہوا تو بالاولی یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے) یقیناً مسواک کا بچا ہوا پانی وہ ہے جو ستھرا ہوتا ہے وضو کرنے والے کےلئے کہ وہ اس پانی سے وضو کرے۔
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري187
«ومستعمل وغير مستعمل» ”مستعمل اور غیر مستعمل (پانی میں کوئی فرق نہیں)۔“ مستعمل (استعمال شدہ) پانی طاہر (پاک) ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: ❀ حضرت عروہ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ» نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریب ہوتے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے (بچے ہوئے) پانی کو لینے میں جھگڑا نہ شروع کر دیں۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 189، أحمد 329/4 - 330] ❀ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا تو لوگوں کی یہ حالت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے پانی کو حاصل کر کے اسے (اپنے جسموں پر) لگاتے تھے۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 187] ❀ جب جابر رضی اللہ عنہ مریض تھے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوء کا پانی ان پر بہایا۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى/ بَابُ وُضُوءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ:/ ح: 5676] مستعمل پانی مطہر (یعنی پاک کرنے والا) بھی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے اثبات کے لیے علماء کی طرف سے پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرنا تو محل نظر ہے لیکن یہ مسئلہ صحیح ثابت ہے۔ ❀ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ «أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مِنْ فَضْلِ مَاءٍ كَانَ فِي يَدِهِ» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اسی زائد پانی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود تھا۔“[سنن ابي داود ح: 130]۱؎ ❀ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک ٹب میں غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹب سے وضو یا غسل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ میں جنبی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ»”بے شک پانی ناپاک نہیں ہوتا۔“[أبو داود 68]۲؎ واضح رہے کہ مستعمل پانی سے مراد فقہاء کے نزدیک ایسا پانی ہے جسے جنابت رفع کرنے کے لیے، یا رفع حدث (یعنی وضو یا غسل)کے لیے، یا ازالہ نجاست کے لیے، یا تقرب کی نیت سے اجر و ثواب کے کاموں (مثلاًً وضو پر وضو کرنا یا نماز جنازہ کے لیے، مسجد میں داخلے کے لیے، قرآن پکڑنے کے لیے وضو کرنا وغیرہ) میں استعمال کیا گیا ہو۔ [فتح القدير 58/1]۳؎
مستعمل پانی کے حکم میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ (ابوحنفیہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ) کسی حال میں بھی ایسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔ امام لیث رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے۔ (مالکیہ) مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں۔ (ابویوسف رحمہ اللہ) مستعمل پانی نجس ہے (یاد رہے کہ یہ اپنے قول میں منفرد ہیں)۔ (اہل ظاھر) مستعمل پانی اور مطلق پانی میں کوئی فرق نہیں (یعنی جیسے مطلق پانی طاہر و مطہر ہے اسی طرح مستعمل پانی بھی طاہر و مطہر ہے) امام حسن، امام عطاء، امام نخعی، امام زہری، امام مکحول، اور امام احمد رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب مروی ہے۔ [بدائع الصنائع 66/1]۴؎ (راجح) مستعمل پانی طاہر ومطہر ہے جیسا کہ ابتدا میں دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔ (شوکانی رحمہ اللہ) مستعمل پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [نيل الأوطار 85/1] (ابن رشد رحمہ اللہ) مستعمل پانی حکم میں مطلق پانی کی طرح ہی ہے۔ [بداية المجتهد 55/1] (صدیق حسن خان رحمہ اللہ) حق بات یہی ہے کہ مجرد استعال کی وجہ سے پانی پاک کرنے والی صفت سے خارج نہیں ہوتا۔ [الروضة الندية 68/1] (ابن حزم رحمہ اللہ) استعمال شدہ پانی کے ساتھ غسل جنابت اور وضو جائز ہے قطع نظر اس سے کہ دوسرا پانی موجود ہو یا نہ ہو۔ [المحلى بالآثار 182/1]
استعمال شدہ پانی کو مطہرنہ کہنے والوں کے دلائل اور ان پر حرف تنقید ❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں تو اس میں کوئی مضائقہ ہیں۔ [سنن ابن ماجه/ ح: 374]۵؎ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ جواز کی احادیث کے قرینہ کی وجہ سے اس حدیث کی ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کیا جائے گا۔ [سبل السلام 26/1] جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم/ 323]۶؎ ❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري/ ح 239] ان کے نزدیک (مذکورہ حدیث میں) ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں پانی مستعمل ہو کر غیر مطہر نہ ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجو نہیں بلکہ منع کا سبب زیادہ سے زیادہ صرف یہی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور اس کا نفع جاتا رہے اس بات کی تائید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے ہوتی ہے کو ”وہ شخص اسے (یعنی پانی کو) باہر نکال کر استعمال کر لے۔“[نيل الأوطار 58/1]۷؎ امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ہم نے احناف کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے عجیب ترین قول یہ ہے کہ ایک صاف ستھرے طاہر مسلمان کے وضو کا مستعمل پانی مردہ چوہے سے زیادہ نجس ہے۔ [المحلى بالآثار 150/1] ------------------ ۱؎[حسن: صحيح أبو داود 120، كتاب الطهارة: باب صفة وضوء النبى، أبو داود 130، تر مذي 33] ۲؎[صحيح: صحيح أبو داود 16، كتاب الطهارة: باب الماء لا يجنب أبو داود 68، ابن ماجة 364، عارضة الأحوذي 82/1] ۳؎[كشاف القناع 31/1-37، المغني 10/1، ہداية المجتهد 26/1، بدائع الصنائع 69/1، الدر المختار 182/1، فتح القدير 58/1] ۴؎[والمجموع 151/1، المبسوط 46/1، بدائع الصنائع 66/1، مختصر الطحاوي 16، المغني 47/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/40، اللباب 76/1، الأصل 125/1] ۵؎[صحيح: صحيح ابن ماجه 300، كتاب الطهارة وسننها: باب النهي عن ذلك، ابن ماجة 374، طحاوي 64/1، دار قطني 26/1] ۶؎[مسلم 323، كتاب الحيض: باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، احمد 366/1، بيهقي 188/1] ۷؎[نيل الأوطار 58/1، السيل الجرار 57/1، المحلي 186/1] * * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 135
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:187
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث مذکور میں فضل وضو سے مراد وہ پانی ہے جو رسول ﷺ کے وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا جسے لوگوں نے تقسیم کر لیا اور چہروں پر ملنا شروع کردیا۔ اگر چہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ پانی ہو جو وضو کرتے وقت اعضائے شریفہ سے گررہا تھا جسے فقہاء کی اصطلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ یہ حدیث مستعمل پانی کے پاک ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (فتح الباري: 386/1) لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ پانی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ پر لگنے کے بعد گر رہا تھا، اس میں انوار و برکات زیادہ ہیں۔ اس متبرک پانی کو حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی شروع ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ وضو کے بعد جو پانی برتن میں بچ رہے یا وہ پانی جو وضو کرنے والے کے اعضاء سے ٹپکے اس قسم کے پانی کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پانی نجس نہیں، کیونکہ نجاست آلود چیز بابرکت نہیں ہو سکتی۔ 2۔ جو لوگ ماءِ مستعمل کو ”ماءِ ذَنوب“ قراردے کر نجس کہتے ہیں اور اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے، ان کے متعلق ابن بطال نے محدث ابن القصار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس پانی سے گناہوں کا دھل جانا اپنی جگہ پر مسلّم حقیقت ہے، لیکن وہ گناہ نمک کی طرح پانی میں تحلیل نہیں ہوئے کہ اسے نجس قراردے دیا جائے، اس طرح یہ گناہ پانی کے حکم پر شرعاً اثر انداز نہیں ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ نے بطور مثال ہمیں سمجھایا ہے کہ جس طرح کپڑا دھونے سے اس کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے اسی طرح وضو کرنے سے انسان کا بدن گناہوں کی میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ وضو کا پانی پہلے پہلے اعضائے وضو کے جن اجزاء پر پڑے گا اگر وہ گناہوں کی آمیزش سے نجس ہو جاتے تو اعضائے وضو کے بقیہ اجزاء کو کیونکر پاک کر سکتا ہے، اگر ایسی بات ہو تو وضو کرنے والے کو اعضائے وضو کے ہر حصے کو دھونے کے لیے نیا پانی لینا پڑے گا، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ (شرح ابن بطال: 290/1) 3۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے مضافاتِ مکہ میں نماز پڑھتے وقت سترے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام یا حرم مکہ میں بھی امام اور منفرد کو نماز کے لیے اپنے آگے سترہ رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر مکہ اور غیر مکہ میں سترے کے ضروری ہونے کے لیے ایک عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 501) 4۔ وضو کرتے وقت اعضائے وضو سے ٹپکنے والا پانی اس معنی میں تو مستعمل ہو سکتا ہے کہ یہ پینے کے قابل نہیں رہتا کہ آپ لوگوں کو پیش کریں، لیکن اگر کسی کپڑے پر گر جائے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے اجتناب کرنے کی تلقین ضرور فرماتے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کے چھینٹوں سے احتراز کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اعضائے شریفہ سے لگ کر گرنے والا پانی انتہائی بابرکت ہے۔ جبکہ عام انسان کے اعضاء سے گرنے والا پانی اس قسم کی خیرو برکت سے خالی ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 187