ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ انصار جب حج کے لیے آتے تو (احرام کے بعد) گھروں میں دروازوں سے نہیں جاتے بلکہ دیواروں سے کود کر (گھر کے اندر) داخل ہوا کرتے تھے پھر (اسلام لانے کے بعد) ایک انصاری شخص آیا اور دروازے سے گھر میں داخل ہو گیا اس پر لوگوں نے لعنت ملامت کی تو یہ وحی نازل ہوئی کہ ”یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے سے (دیواروں پر چڑھ کر) آؤ بلکہ نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1803]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1803
حدیث حاشیہ: عہد جاہلیت میں قریش کے علاوہ عام غریب لوگ حج سے واپس ہوتے وقت گھروں کے دروازوں سے آنا معیوب سمجھتے اور دورازے کا سایہ سر پر پڑنا منحوس جانتے، اس لیے گھروں کی دیواروں سے پھاند کر آتے۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید۔ وہ آنے والا انصاری جس کا روایت میں ذکر ہے قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں اس کی صراحت ہے اس کا نام رفاعہ بن تابوت بتایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اسلامی اساسی امور کے بیان پر مشتمل ہے۔ آنے والے بزرگ کی تفصیلات کے سلسلے میں حافظ ابن حجر کا بیان یہ ہے: فِي صَحِيحَيْهِمَا مِنْ طَرِيقِ عَمَّارِ بْنِ زُرَيْقٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَتْ قُرَيْشٌ تُدْعَى الْحُمْسَ وَكَانُوا يَدْخُلُونَ مِنَ الْأَبْوَابِ فِي الْإِحْرَامِ وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ وَسَائِرُ الْعَرَبِ لَا يَدْخُلُونَ مِنَ الْأَبْوَابِ فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بُسْتَانٍ فَخَرَجَ مِنْ بَابِهِ فَخَرَجَ مَعَهُ قُطْبَةُ بْنُ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قُطْبَةَ رَجُلٌ فَاجِرٌ فَإِنَّهُ خَرَجَ مَعَكَ مِنَ الْبَابِ فَقَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ رَأَيْتُكَ فَعَلْتَهُ فَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتَ قَالَ إِنِّي أَحْمَسِيٌّ قَالَ فَإِنَّ دِينِي دِينُكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ۔ (فتح الباري) یعنی قریش کو حمس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور صرف وہی حالت احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہو سکتے تھے، ایسا عہد جاہلیت کا خیال تھا اور انصار بلکہ تمام اہل عرب اگر حالت احرام میں اپنے گھروں کو آتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر آیا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ ایک باغ کے دروازے سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ساتھ یہ قطبہ بن عامر انصاری بھی دروازے سے ہی آگئے۔ اس پر لوگوں نے ان کو لعن طعن شروع کی بلکہ فاجر تک کہہ دیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے بھی ایسا کیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ آپ نے کیا تو آپ کی اتباع میں میں نے بھی ایسا کیا، آپ ﷺ نے فرمایا میں تو حمسی ہوں انہوں نے کہا کہ حضور دین اسلام جو آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1803
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1803
حدیث حاشیہ: دور جاہلیت میں قریش کے علاوہ لوگ حج سے فراغت کے بعد جب اپنے گھروں کو واپس ہوتے تو گھر کے دروازے سے اندر آنے کو معیوب خیال کرتے تھے بلکہ اگر دروازے کا سایہ سر پر پڑ جاتا تو اسے منحوس خیال کرتے، اسی لیے وہ گھروں کی دیواریں پھاند کر اندر آتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے سے اس غلط خیال کی تردید فرمائی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1803