ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے فضل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ دسویں تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیا، خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لوگو! آج کون سا دن ہے؟ لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا اور یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا شہر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا مہینہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس تمہارا خون تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے، اس کلمہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دہرایا اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا اے اللہ! کیا میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت اپنی تمام امت کے لیے ہے، لہٰذا حاضر (اور جاننے والے) غائب (اور ناواقف لوگوں کو اللہ کا پیغام) پہنچا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا دیکھو میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1739]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1739
حدیث حاشیہ: یہ خطبہ یوم النحر کو سنانا سنت ہے اس میں رمی وغیرہ کے احکام بیان کرنا چاہئے اور یہ حج کے چار خطبوں میں سے تیسرا خطبہ ہے اور سب نماز عید کے بعد ہیں مگر عرفہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہے اس دن دو خطبے پڑھنے چاہئیں۔ قسطلانی (وحیدی) حج کا مقصد عظیم دنیائے اسلام کو خدا ترسی اور اتفاق باہمی کی دعوت دینا ہے اور اس کا بہترین موقع یہی خطبات ہیں، لہٰذا خطیب کا فرض ہے کہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ وہ دنیائے اسلام کے مسائل پر بھی روشنی ڈالے اور مسلمانوں کو خدا ترسی، کتاب و سنت کی پابندی اور باہمی اتفاق کی دعوت دے کہ حج کا یہی مقصود اعظم ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس خطبہ میں اللہ کو پکارنے کے لیے آسمان کی طرف سر اٹھایا، اس سے اللہ پاک کے لیے جہت فوق اور استوی علی العرش ثابت ہوا۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو یوم النحر/ آٹھویں کو یوم الترویہ، نویں کو یوم عرفہ اور گیارہویں کو یوم القرا اور بارہویں کو یوم النفر اول اور تیرہویں کو یوم النفر الثانی کہتے ہیں۔ اور دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1739
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1739
باب اور حدیث میں مناسبت:
یہ یوم عرفہ کا خطبہ تھا اور منی کا خطبہ بعد والا ہے جو دسویں تاریخ کو دیا تھا، اس میں صاف یوم النحر کی وضاحت موجود ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «فہذا الحدیث الذى وقع فى الصحیح أنہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب بہ یوم النحر وقد ثبت انہ خطب بہ قبل ذالک یوم عرفہ»
یعنی ”صحیح بخاری کی حدیث میں صاف طور پر مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر میں خطبہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ یوم عرفات میں بھی پیش فرمایا تھا۔“
حاشیۃ السندی میں ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کے دو جواب دیئے گئے ہیں۔ امام سندھی رقمطراز ہیں: «بأن یقال أیام من یشملہ أیضًا تغلیبًا، أو باعتبار أن ابتداء یوم عرفۃ یکون بمنی۔»[حاشیۃ السندى، ج 1، ص: 299]
امام سندھی کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم عرفہ کی ابتداء منی سے ہوتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کا خطبہ دیا تو لازما عرفات کا خطبہ بھی دیا ہو گا۔ لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
لہٰذا جب یہ دونوں خطبات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے تو منی کا بھی خطبہ ثابت ہو گیا جو بہت ضروری خطبہ ہے۔
دونوں کو خطبہ کے نام سے یاد کیا کیوں کہ دونوں خطبوں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «بأن البخاری أراد أن یبین أن الراوی قد سماہا: ”خطبۃ“ کما سمى التى وقعت فى عرفات خطبۃ۔»[إرشاد الساری، ج 3، ص: 485] ”امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ (منی کے دن کو) خطبہ کا نام دیا۔ راوی نے جس طرح (عرفات کے دن) خطبہ کو خطبہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔“
لہٰذا دونوں خطبہ ہی تھے، یوم عرفہ کی ابتداء منی سے ہوئی جب کہ عرفات کا خطبہ بھی انتہائی ضروری تھا۔ پس ترجمۃ الباب اور حدیث میں یہیں سے مناسبت ہو گی۔