ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں حجۃ الحروریہ کے سال حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ لوگوں میں باہم قتل و خون ہونے والا ہے اور ہم کو خطرہ اس کا ہے کہ آپ کو (مفسد لوگ حج سے) روک دیں، آپ نے جواب میں یہ آیت سنائی کہ ”تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔“ اس وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، پھر جب آپ بیداء کے بالائی حصہ تک پہنچے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ میں نے حج کو بھی جمع کر لیا ہے، پھر آپ نے ایک ہدی بھی ساتھ لے لی جسے ہار پہنایا گیا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا یہاں تک کہ آپ مکہ آئے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جو چیزیں (احرام کی وجہ سے ان پر) حرام تھیں ان میں سے کسی سے قربانی کے دن تک وہ حلال نہیں ہوئے، پھر سر منڈوایا اور قربانی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پہلا طواف کر کے انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا طواف پورا کر لیا ہے پھر آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1708]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1708
حدیث حاشیہ: اس روایت میں حجۃ الحروریہ سے مراد امت کے طاغی حجاج کی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف فوج کشی ہے۔ یہ73ھ کا واقعہ ہے، حجاج خود خارجی نہیں تھا لیکن خارجیوں کی طرح اس نے بھی دعوائے اسلام کے باوجود حرم اور اسلام دونوں کی حرمت پر تاخت کی تھی۔ اس لیے راوی نے اس کے اس حملہ کو بھی خارجیوں کے حملہ کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو بھی ایک طرح سے خارجیوں کا حملہ تصور کیا کہ اس نے امام حق یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف چڑھائی کی۔ حجۃ الحروریہ کہنے سے ہجو اور خوارج کے سے عمل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ خارجیوں نے 64ھ میں حج کیا تھا، احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ان ہر دو سالوں میں حج کیا ہو۔ باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیا اور عمرہ کے ساتھ حج کو بھی جمع فرما لیا اور فرمایا کہ اگر مجھ کو حج سے روک دیا گیا تو آنحضرت ﷺ کو بھی مشرکوں نے حدیبیہ کے سال حج سے روک دیا تھا اور آپ ﷺ نے اسی جگہ احرام کھول کر جانوروں کو قربان کرا دیا تھا، میں بھی ویسا ہی کرلوں گا، مگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے بروقت جملہ ارکان حج کو ادا فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1708
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1708
حدیث حاشیہ: (1) یہ عنوان معمولی سے لفظی اختلاف کے ساتھ پہلے گزر چکا ہے۔ (باب: 105) ۔ اس میں صرف قربانی کو قلادہ ڈالنے کا اضافہ ہے، یعنی ضروری نہیں کہ قربانی کے جانور کو گھر سے قلادہ ڈال کر لایا جائے بلکہ راستے سے خرید کر بھی اس سنت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ (2) اس روایت میں حج حروریہ کا ذکر ہے۔ حروراء کوفہ کے قریب ایک بستی کا نام ہے جہاں خوارج کا پہلا اجتماع ہوا تھا اسی مناسبت سے انہیں حروریہ کہا گیا۔ خوارج کا حج 64 ہجری میں ہوا تھا اور جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے حجاج بن یوسف نے جنگ کا ارادہ کیا وہ 73 ہجری کا واقعہ ہے۔ ممکن ہے کہ راوی نے حجاج اور اس کے اتباع پر خوارج کا اطلاق کیا ہو کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی حکومت برحق تھی اور حجاج نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ان کی اطاعت سے خارج ہو گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ متعدد مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو کسی قسم کے خدشات سے واسطہ نہ پڑا بلکہ انہوں نے بروقت جملہ ارکان حج ادا فرمائے۔ (فتح الباري: 695/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1708