ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا۔ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں رکن یمانی کو چومتے ہوئے دیکھا میں نے بھی اس کے چومنے کو خواہ سخت حالات ہوں یا نرم نہیں چھوڑا۔ میں نے نافع سے پوچھا کیا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں یمنی رکنوں کے درمیان معمول کے مطابق چلتے تھے؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ معمول کے مطابق اس لیے چلتے تھے تاکہ حجر اسود کو چھونے میں آسانی رہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1606]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1606
حدیث حاشیہ: (1) بیت اللہ کے چار کونے ہیں: رکن یمانی اور حجراسود والے کونوں کو يمانيين کہتے ہیں۔ رکن عراقی اور رکن شامی کو شاميين کہا جاتا ہے۔ (2) رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان رمل نہیں کیا جاتا بلکہ عام معمول کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ اس حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ سائل نے حضرت نافع سے رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان چلنے کے متعلق دریافت کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے درمیان رمل نہیں ہوتا تھا اور اس کے علاوہ میں رمل ہوتا تھا۔ حضرت نافع نے بتایا کہ حضرت ابن عمرؓ رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان اس لیے عام چال چلتے تھے تاکہ حجراسود کو بآسانی بوسہ دیا جا سکے۔ (3) رکن یمانی کو ہاتھ لگانا استلام کہلاتا ہے۔ ہاتھ لگا کر اسے چومنا درست نہیں جبکہ حجراسود کو چومنا مسنون ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حجر اسود کو ہاتھ لگا کر چومنا چاہیے۔ اگر ایسا بھی نہ ہو سکے تو دور سے اشارہ کر دے۔ اشارے کی صورت میں ہاتھ کو چومنا صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1606