باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ آیت مبارکہ میں بیت اللہ کو امن کی جگہ قرار دیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک مسلمان بیت اللہ کو آباد رکھیں گے تو وہ ان کے واسطے امن کی جگہ ہو گی اور جب دنیا سے ایمان والے رخصت ہو جائیں گے اور زمین پر ایک بھی سجدہ کرنے والا نہ ہو گا تو کعبہ کو پتلی پنڈلیوں والا حبشی ڈھا دے گا۔ یہ حدیث قرب قیامت کی عین نشانی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد
(قرآن پاک کی آیت میں لفظ) «قياما» سے
«قواما» ہے۔ یعنی جب تک کعبہ موجود رہے گا تب تک دین قائم رہے گا۔ یہی نکتہ ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث کو لانے میں کہ اخیر زمانے میں کعبہ خراب ہو جائے گا اور حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ
”ہمیشہ لوگ دین پر قائم رہیں گے جب تک کہ کعبہ کا حج کرتے رہیں گے اور قبلے کی طرف منہ کرتے رہیں گے۔
“ مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«واجيب بأن ذالك محمول على أنه يعع فى أخر الزمان قرب قيام الساعة حيث لا يبقي فى الارض أحد يقول الله كما ثبت صحيح مسلم ”لا تقوم الساعة حتي يقال فى الارض الله الله“» [فتح الباري: ج 2 ص 589] ”یہ حدیث قرب قیامت آخری زمانے پر محمول ہے جس وقت ایک شخص بھی زمین پر اللہ اللہ کہنے والا باقی نہ ہو گا۔
“ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ: قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ زمیں پر ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا باقی ہو گا۔
امام کرمانی رحمہ اللہ نے بھی یہی توجیہ دی ہے کہ قرب قیامت کا مسئلہ ہے جب دنیا بگڑ جائے گی۔ دیکھئے:
[الكواكب الداري ج 8 ص 90] اب یہاں یہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرب قیامت میں یہ حادثہ واقع ہو گا تو وہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے پہلے ہوگا یا ان کی وفات کے بعد۔
محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اختلفوا فيه هل هو فى زمن عيسيٰ أو عند قيام الساعة حين لايبقي أحد يقول: الله الله؟» [الابواب والتراجم ج 2 ص 248] امام قرطبی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«إن خرابه يكون بعد رفع القرآن من الصدور والمصاحف، وذلك بعد موت عيسى - عليه الصلاة والسلام -، وهو الصحيح. انتهى.» [ذخيرة العقبي ج 25 ص 168، فتح الباري ض 4 ص 259] یعنی یہ خرابی اس وقت واقع ہو گی جب لوگوں کے سینوں سے قرآن اور مصحف کو اٹھالیا جائے گا اور یہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد ہو گا اور یہ صحیح ہے۔
یعنی بیت اللہ میں امن اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ایمان والے سرزمین پر باقی رہیں گے ان کے بعد زمین سے امن اٹھا لیا جائے گا اور حبشی بیت اللہ کو ڈھا دے گا۔
دوسری حدیث جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس کی ترجمۃ الباب سے مناسبت کچھ اس طرح سے ہو گی کہ حدیث میں عاشورا کے دن کعبہ پر پردہ ڈالنے کا ذکر موجود ہے، جس سے کعبہ کی عظمت ثابت ہوئی ہے جو کہ ترجمۃ الباب کا اصل مقصد ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فانه يفيد أن الجاهلية كانوا يعظمون الكعبة قديماً بالسور ويقومون بها» [فتح الباري: ج 4 ص 291] یعنی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جاہلیت کے ایام میں لوگ ہمیشہ کعبہ کی تعظیم کرتے تھے کہ اس پر غلاف پہناتے تھے اور اس کا ادب کرتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر سال عاشورہ کے دن اس کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔ پس یہیں سے مطابق ہے حدیث اور ترجمۃ الباب کی۔
ابن المنیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«انما ادخل خبر ذي السويقتين تحت الترجمة بالاية ان الامر المذكور مخصوص بالزمن الذى شاء الله فيه الامان، واذا شاء رفعه عند خروج ذي السويقتين ثم شاء اعاده بعد» [المتواري: ص 142] ”پتلی پنڈلیوں والی کی حدیث کا تعلق ترجمۃ الباب کی آیت سے اس امر کو واضح کرتی ہے کہ
(جب پتلی پنڈلیوں والا کعبہ کو ڈھا دے گا) تو وہ زمانہ مخصوص ہو گا
(یعنی قرب قیامت کے وقت) جس میں اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ اس میں امان ہو گا اور جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو امن کو اٹھا لے گا اور جب چاہے گا واپس لوٹا دے گا
(امن کو)۔
“ ایک اشکال اور اس کا جواب: ایک شدید اشکال وارد ہوتا ہے حدیث پر کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا» [العنكبوت:67] ”کیا نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنائی ہے۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حرم کو امن کی جگہ قرار دی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس جگہ کو کوئی ڈھا دے؟
اس جواب کے لئے ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی فتح الباری کی طرف مراجعت کرتے ہیں جس میں آپ نے بہت عمدہ طریقے سے اس اشکال کا جواب دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولأن الله حبس عن مكة الفيل ولم يمكن أصحابه من تخريب الكعبة ولم تكن إذا ذاك قبلة، فكيف يسلط عليها الحبشة بعد أن صارت قبلة للمسلمين؟ وأجيب بأن ذالك محمول على انه يقع فى آخر الزمان قرب قيام الساعة حيث لا يبقيٰ فى الأرض الله الله ولهذا وقع قبل ذالك فيه من القتال وغزو أهل الشام له فى ذمن يزيد بن معاوية ثم من بعده فى وقائع كثيرة من أعظمها وقعة القرامطة بعد الثلاثمائة فقتلوا من المسلمين فى المطاف من لا يحصي كثرة وقلعوا الحجر الأسود فحولوه إلى بلادهم ثم أعادوه بعد مدة طويلة، ثم غزي مرارّ بعد ذالك كل ذالك لا يعارض قوله تعالىٰ ﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا أمِنًا﴾ لأن ذالك انما وقع بأيدي المسلمين فهو مطابق لقوله صلى الله عليه وسلم ولن يستحل هذا البيت إلا أهله فوقع ما اخبر به النبى صلى الله عليه وسلم وهو من علامات نبوته، وليس فى الآية ما يدل على استمرار الامن المذكور فيها .» [فتح الباري، ج3، ص589] ”یعنی اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں کو مکہ سے روکا اور کعبے کو ڈھانے کی قدرت نہ رکھ سکے اور پہلے کبھی بھی آج تک ایسا نہیں ہوا پھر حبشہ کعبہ پر کس طرح غالب آ جائیں گے بعد اس کے کہ اس پر مسلمانوں کا قبلہ ہو چکا ہے؟ سو جواب اس کا یہ ہے کہ یہ محمول ہے اخیر زمانے پر کہ یہ معاملہ قرب قیامت واقع ہو گا جب کہ زمین پر کوئی اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا نہ ہو گا۔ اور اس سے قبل بھی
(بیت اللہ) میں کئی بار لڑائیاں ہو چکی ہیں سب سے بڑی لڑائی قرامط کی ہے جو تین سو ہجری کے بعد واقع ہوئیں کہ قرامط کعبے پر چڑھ آئے اور طواف کی جگہ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جس کا کوئی شمار نہیں اور حجر اسود کو اٹھا کر اپنے ملک میں لے گئے پھر عرصے طویل کے بعد اس کو دوبارہ نصب کیا گیا پھر اس کے بعد بھی کعبہ میں کئی بار لڑائیاں ہوئیں اور یہ سب اس آیت کے مخالف نہیں اس لئے کہ یہ تمام حادثات مسلمانوں کے ہاتھوں سے واقع ہوئے نہ کہ کافروں کے ہاتھوں اور
(اگر غور کیا جائے) تو آیت میں ایسی کوئی چیز نہیں جو دلالت کرے اس پر کہ اس میں ہمیشہ امن رہے گا۔
قلت: قرآن مجید کی آیت عام حکم پر دال ہے لیکن جو حدیث ہے وہ قرب قیام کے ساتھ خاص ہے لہٰذا یہ ایک
(Specific) خاص مسئلہ ہے کیوں کہ پہلے جتنے واقعات نمودار ہوئے وہ سب قرب قیامت نہ تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس واقعہ کی پیشن گوئی فرمائی ہے وہ قرب قیامت وقوع پذیر ہو گا لہٰذا قرآن وصحیح حدیث میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے۔