ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مطرف نے عمران بن حصین سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے تمتع کیا تھا اور خود قرآن میں تمتع کا حکم نازل ہوا تھا۔ اب ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1571]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1571
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حج تمتع کے متعلق قرآنی آیت نازل ہوئی اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا، پھر قرآن نے اس کو حرام نہیں کہا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی آخر دم تک اس سے منع نہیں فرمایا۔ اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے سے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4518)(2) امام بخاری ؒ نے اس روایت کے بعد وضاحت کی ہے کہ حج تمتع سے منع کرنے والے حضرت عمر ؓ تھے۔ قرائن بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حج تمتع سے منع کرنے والے حضرت عمر ؓ تھے، اس کے بعد جس نے بھی اس سے منع کیا اس نے حضرت عمر ؓ کی اتباع کرتے ہوئے منع کیا تھا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی حج تمتع سے منع کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے اجتہاد کی بنیاد پر منع کیا تھا جو نص کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ (فتح الباري: 546/3)(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآنی حکم کو قرآن کی آیت سے منسوخ کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ حدیث سے قرآن کا نسخ مختلف فیہ ہے، لیکن ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ احادیث سے بھی قرآنی حکم منسوخ ہو سکتا ہے کیونکہ اس حدیث میں حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ حج تمتع سے رسول اللہ ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ منع کر دیتے تو قرآنی حکم منسوخ قرار پاتا۔ (فتح الباري: 546/3) واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1571