الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
34. باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
حدیث نمبر: 1569
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَعْوَرُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ:" اخْتَلَفَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُمَا بِعُسْفَانَ فِي الْمُتْعَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَنْهَى عَنْ أَمْرٍ فَعَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما عسفان آئے تو ان میں باہم تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اس سے آپ کیوں روک رہے ہیں؟ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اپنے حال پر رہنے دو۔ یہ دیکھ کر علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1569]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1569 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1569  
حدیث حاشیہ:
عسفان ایک مقام ہے مکہ سے 36 میل پر یہاں کے تربوز مشہور ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے گو خود تمتع نہیں کیا تھا مگر دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا تو گویا خود کیا۔
یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بحث تو تمتع میں تھی پھر حضرت علی ؓ نے قران کیا، اس کا کیا مطلب ہے۔
جواب یہ ہے کہ قران اور تمتع دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
حضرت عثمان ؓ دونوں کو ناجائز سمجھتے تھے۔
عجیب بات ہے قرآن شریف میں صاف یہ موجودہے۔
﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ﴾ اور احادیث صحیحہ متعدد صحابہ کی موجود ہیں۔
جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت ﷺ نے تمتع کا حکم دیا۔
پھر ان صاحبوں کا اس سے منع کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔
بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ اس تمتع سے منع کرتے تھے کہ حج کی نیت کر کے حج کا فسخ کردینا اس کو عمرہ بنا دینا۔
مگر یہ بھی صراحتا احادیث سے ثابت ہے۔
بعضوں نے کہا یہ ممانعت بطور تنزیہ کے تھی۔
یعنی تمتع کو فضیلت کے خلاف جانتے تھے۔
یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
اس لئے کہ حدیث سے صاف یہ ثابت ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔
حاصل کلام یہ کہ یہ مقام مشکل ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان ؓ کوحضرت علی ؓ کے مقابل کچھ جواب نہ بن پڑا۔
اس سلسلہ میں حافظ صاحب فرماتے ہیں:
فِي قِصَّةِ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ مِنَ الْفَوَائِدِ إِشَاعَةُ الْعَالِمِ مَا عِنْدَهُ مِنَ الْعِلْمِ وَإِظْهَارُهُ وَمُنَاظَرَةُ وُلَاةِ الْأُمُورِ وَغَيْرِهِمْ فِي تَحْقِيقِهِ لِمَنْ قَوِيَ عَلَى ذَلِكَ لِقَصْدِ مُنَاصَحَةِ الْمُسْلِمِينَ وَالْبَيَانُ بِالْفِعْلِ مَعَ الْقَوْلِ وَجَوَازُ الِاسْتِنْبَاطِ مِنَ النَّصِّ لِأَنَّ عُثْمَانَ لَمْ يَخْفَ عَلَيْهِ أَنَّ التَّمَتُّعَ وَالْقِرَانَ جَائِزَانِ وَإِنَّمَا نَهَى عَنْهُمَا لِيُعْمَلَ بِالْأَفْضَلِ كَمَا وَقَعَ لِعُمَرَ لَكِنْ خَشِيَ عَلِيٌّ أَنْ يَحْمِلَ غَيْرُهُ النَّهْيَ عَلَى التَّحْرِيمِ فَأَشَاعَ جَوَازَ ذَلِكَ وَكُلٌّ مِنْهُمَا مُجْتَهِدٌ مَأْجُورٌ۔
(فتح الباری)
یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کے واقعہ مذکورہ میں بہت سے فوائد ہیں۔
مثلاً جو کچھ کسی کے پاس علم ہو اس کی اشاعت کرنا اور اہل اسلام کی خیر خواہی کے لئے امرحق کا اظہار کرنا یہاں تک کہ اگر مسلمان حاکموں سے مناظرہ تک کی نوبت پہنچ جائے تویہ بھی کرڈالنا اور کسی امرحق کا محض بیان ہی نہیں کرنا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھلادینااور نص سے کسی مسئلہ کا استنباط کرنا۔
کیونکہ حضرت عثمان ؓ سے یہ چیز مخفی نہ تھی حج تمتع اور قران بھی بھی جائز ہیں مگر انہوں نے افضل پر عمل کرنے کا خیال سے تمتع سے منع فرمایا۔
جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے بھی واقع ہوا اور حضرت علی ؓ نے اسے اس پر محمول کیا کہ عوام الناس کہیں اس نہ کو تحریم پر محمول نہ کر بیٹھیں۔
اس لیے انہوں نے اس کے جواز کا اظہار فرمایا بلک ہ عمل بھی کر کے دکھلا دیا۔
پس ان میں دونوں ہی مجتہد ہیں اور ہر دو کو اجرو ثواب ملے گا۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کوئی فروعی اختلاف واقع ہو تو اس پر ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔
بلکہ صرف اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔
ایسے فروعی امور میں اختلاف فہم کا ہوناقدرتی چیزہے۔
جس کے لئے صدہا مثالیں سلف صالحین میں موجود ہیں۔
مگر صدافسوس کہ دور حاضرہ کے کم فہم علماء نے ایسے ہی اختلافات کو رائی کا پہاڑ بناکر امت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔
اللهم ارحم علی أمة حبیبك۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1569   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1569  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی ؓ نے حج قران کا احرام باندھا جبکہ ان کا حضرت عثمان ؓ سے اختلاف حج تمتع کے متعلق تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ حج تمتع اور قران دونوں سے منع کرتے تھے جیسا کہ حدیث: 1563 میں ہے۔
(2)
حضرت عثمان ؓ اس لیے منع کرتے تھے کہیں لوگ حج افراد کو نظر انداز نہ کر دیں، یعنی ان کا اختلاف جواز یا عدم جواز کے متعلق نہیں تھا بلکہ افضل اور غیر افضل کے بارے میں تھا۔
ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے حج تمتع سے منع کیا لیکن جب حضرت على ؓ اور آپ کے ساتھیوں نے عمرے کا احرام باندھا تو حضرت عثمان ؓ نے انہیں منع نہ کیا۔
حضرت علی ؓ نے انہیں کہا:
کیا آپ کو علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا تھا؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا:
ہاں، مجھے علم ہے لیکن اس وقت ہم خوفزدہ تھے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2962 (1223)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1569