اور ابومعمر نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے نافع سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ذوالحلیفہ میں صبح کی نماز پڑھ چکے تو اپنی اونٹنی پر پالان لگانے کا حکم فرمایا، سواری لائی گئی تو آپ اس پر سوار ہوئے اور جب وہ آپ کو لے کر کھڑی ہو گئی تو آپ کھڑے ہو کر قبلہ رو ہو گئے اور پھر لبیک کہنا شروع کیا تاآنکہ حرم میں داخل ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے لبیک کہنا بند کر دیا۔ پھر ذی طویٰ میں تشریف لا کر رات وہیں گزارتے صبح ہوتی تو نماز پڑھتے اور غسل کرتے (پھر مکہ میں داخل ہوتے) آپ یقین کے ساتھ یہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔ عبدالوارث کی طرح اس حدیث کو اسماعیل نے بھی ایوب سے روایت کیا۔ اس میں غسل کا ذکر ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1553]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1553
حدیث حاشیہ: تلبیہ کا آغاز کرتے وقت قبلہ رو ہونا مستحب ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ ارض حرم پہنچ کر تلبیہ موقوف کر دیتے تھے اور طواف و سعی میں مصروف ہو جاتے، پھر جب بیت اللہ کے طواف اور صفا و مروہ کی سعی سے فارغ ہو جاتے تو تلبیہ شروع کر دیتے تھے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں صراحت ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 207/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1553