مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 133
´مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ "، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ ذِكْرِ الْعِلْمِ وَالْفُتْيَا فِي الْمَسْجِدِ:: 133]
� تشریح:
مسجد میں سوال کیا گیا اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مساجد کو دارلحدیث کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 133
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1522
1522. زید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے۔ وہاں ان کی قیام گاہ پر خیمے اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں، میں نے دریافت کیا: میں کہاں سے عمرے کے لیے احرام باندھوں؟انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن منازل اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیےحجفہ مقرر فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1522]
حدیث حاشیہ:
میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ لینا چاہئے اور وہاں سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھنا ناجائز ہے اور ادھر ہندوستان کی طرف سے جانے والوں کے لیے یلملم پہاڑ کے محاذ سے احرام باندھ لینا چاہئے۔
جب جہاز پہاڑوں سے گزرتا ہے تو کپتان خود سارے حاجیوں کو اطلاع کرادیتا ہے یہ جگہ عدن کے قریب پڑتی ہے۔
قرن منازل مکہ سے دومنزل پر طائف کے قریب ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے اور جحفہ مکہ سے پانچ چھ منزل پر ہے۔
قسطلانی نے کہا اب لوگ جحفہ کے بدل رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں۔
جو جحفہ کے برابر ہے اور اب جحفہ ویران ہے وہاں کی آب وہوا خراب ہے نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ اترتا ہے (وحیدی)
واختصت الجحفة بالحمیٰ فلاینزلها أحد إلاحم۔
(فتح)
یعنی حجفہ بخار کے لئے مشہور ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں عمالقہ نے قیام کیا تھا جب کہ ان کو یثرب سے بنو عبیل نے نکال دیا تھا مگر یہاں ایسا سیلاب آیا کہ اس نے اس کوبرباد کر کے رکھ دیا۔
اسی لئے اس کا جحفہ نام ہوا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ عمرہ کے میقات بھی وہی ہیں جو حج کے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1522
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1525
1525. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہیں اور اہل شام جحفہ سے، نیز اہل نجد قرن منازل سے احرام کی نیت کریں۔ “ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اہل یمن یلملم سے تلبیہ کہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1525]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
شاید حضرت امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ میقات سے پہلے احرام باندھنا درست نہیں ہے، اسحاق اور داؤد کا بھی ہی قول ہے۔
جمہور کے نزدیک درست ہے۔
یہ میقات مکانی میں اختلاف ہے لیکن میقات زمانی یعنی حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا بالا تفاق درست نہیں ہے۔
نجد وہ ملک ہے جو عرب کا بالائی حصہ تہامہ سے عراق تک واقع ہے۔
بعضوں نے کہا جرش سے لے کر کوفہ کے نواح تک اس کی مغربی حد حجاز ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1525
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1531
1531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1531]
حدیث حاشیہ:
یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔
۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر ؓ کی روایت میں آنحضرت ﷺ سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔
اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔
بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔
میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔
پس حضرت عمر ؓ کا اجتہاد حدیث کے مطابق پڑا (مولانا وحیدی الزماں)
اس بارے میں حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔
آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعه علیه الصحابة واستمر علیه العمل کان أولی بالاتباع۔
یعنی حضرت عمر ؓ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1531
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7344
7344. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل نجد کے لیے مقام قرن اہل شام کے لیے مقام حجفہ اور اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا۔ سیدنا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں: یہ تو میں نے خود نبی ﷺ سے سنا ہے، البتہ مجھے یہ بات بھی پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اہل یمن کے لیے یلملم میقات ہے۔“ ان کے سامنے عراق کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس وقت عراق نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7344]
حدیث حاشیہ:
یہ مقامات احرام حج کی میقات ہیں اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7344
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2652
´مدینہ والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینے والے ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں، اور اہل شام حجفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔“ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یمن والے یلملم سے تلبیہ پکاریں۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2652]
اردو حاشہ:
(1) ”یہ بات پہنچی ہے۔“ گویا یہ ٹکڑا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ لیکن دیگر روایات میں یہ ٹکڑآ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا شک وشبہ صحیح وثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1524، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1181)
(2) ذوالحلیفہ مدینے سے چھ میل اور مکہ مکرمہ سے تقریباً 450 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اسے وادی عقیق بھی کہتے ہیں۔ آج کل اسے بئر علی یا ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ میقات تمام مواقیت میں سے مکہ سے زیادہ دور ہے۔
(3) حج کے ارادے سے جانے والوں کے لیے ان جگہوں سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں۔
(4) یہ حدیث اعلام نبوت میں سے ہے۔ آپ نے جو میقات مقرر کیے، وہ اور ان کے آس پاس کے علاقوں والے ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے یہ میقات مقرر فرمائے کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ علاقے مسلمان ہوں گے اور حج کے لیے بیت اللہ کی طرف رخت سفر باندھیں گے اور انھیں احرام باندھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم
(5) چاروں طرف میقات مقرر کرنا امت کی سہولت کے لیے ہے۔ اگر ایک ہی میقات مقرر کیا جاتا تو یہ بہت زیادہ مشقت کا باعث ہوتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2652
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2653
´شام والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد (نبوی) میں کھڑا ہوا اور پوچھنے لگا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں کہاں سے تلبیہ پکارنے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں گے، اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ بھی) فرمایا: ”اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں گے“، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2653]
اردو حاشہ:
جحفہ شام، مصر، ترکی، شمالی افریقہ، یورپ، امریکہ اور ادھر سے گزرنے والوں کا میقات ہے۔ یہ ایک ویران سی آبادی تھی۔ مکہ مکرمہ سے تقریباً 187 کلو میٹر کے فاصلے پر رابغ کے قریب ہے۔ اس کا اصل نام مَھْیَعَہ تھا۔ سیلاب کی تباہ کاری کی وجہ سے اسے جحفہ کہنے لگے۔ یہ بھی مدینے سے جانے والوں کی راہ میں پڑتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2653
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2656
´نجد والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ والے ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں گے، شام والے حجفہ سے، اور نجد والے قرن (المنازل) سے“، اور میں نے تو نہیں سنا ہے لیکن مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور یمن والے یلملم سے تلبیہ پکاریں گے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2656]
اردو حاشہ:
(1) اہل نجد اور نجد کے راستے سے آنے والوں کا میقات قرن منازل ہے، اسے قرن الثعالب بھی کہا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا احادیث میں صرف لفظ قرن آیا ہے۔ بالاتفاق اس سے قرن المنازل مراد ہے۔ قرن المنازل مکہ مکرمہ سے مشرق کی طرف طائف کے قریب تقریباً 94 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی یا وادی ہے۔ پہاڑ بھی کہا گیا ہے۔ کوئی اختلاف نہیں، تینوں اسی نام سے مشہور ہیں۔ آج کل اسے السَّیْل کہا جاتا ہے۔
(2) نجد ہر اونچے علاقے کو کہتے ہیں۔ عرب میں تقریباً دس نجد ہیں۔ یہاں مراد وہ علاقہ ہے جو مکہ مکرمہ سے مشرقی جانب یمن اور تہامہ سے لے کر عراق اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2656
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:133
133. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس مقام سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے، شام کے لوگ جحفه سے اور نجد کے باشندے قرن سے احرام باندھیں۔“ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: لوگ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔“ حضرت ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ ﷺ سے یہ (آخری) بات اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:133]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی اہمیت و مقصدیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:
”مساجد بول و براز یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعمیر کا ایک خاص مقصد ہے۔
بےشک وہ مقصد اللہ کا ذکر، نماز اور تلاوت قرآن ہے۔
“(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 505(661)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد کو کلمہ حصر(إِنَّمَا)
سے بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں یہی کام ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے کسی شغل کی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے خواہ وہ تعلیم وافتا ہی سے متعلق ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حصر حقیقی نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں علمی باتیں اور فتاوی وغیرہ کا شغل بھی درست ہے، بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرنا اور دینی مباحثہ کرنا بھی جائز ہے ہاں مساجد میں دنیوی باتیں کرنا اور انھیں بازار کی حیثیت دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔
یہ تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد! اب”امام تدبر“کی بھی سنیے۔
جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
”امام صاحب ہر چیز کو نکتہ بنانے کے عادی ہیں ورنہ کس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم دین اور فتوی کے لیے مسجد موزوں مقام ہے یا نہیں؟ مسجد ہی تو مسلمانوں کے دین کا مرکز ہے۔
مناسک حج کے سلسلہ کی یہ ایک اہم روایت ہے لیکن امام صاحب نے اس سے بس یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علمی سوال مسجد میں بھی ہو سکتا ہے۔
“ (تدبر حدیث:
232/1-
234)
امام تدبر تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ہم ان کے تیار کردہ تلامذہ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسجد میں علمی سوال کا جواز ہی ثابت نہیں کیا بلکہ کتاب الحج میں اس پر مزید تین عنوان قائم کیے ہیں۔
(1)
۔
حج اور عمرہ کے لیے میقات کا تعین (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1522) (2)
۔
اہل مدینہ کا میقات (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1525)
(3)
۔
اہل نجد کے لیے جائے احرام۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1528)
اس حدیث پر تفصیلی بحث کتاب الحج میں آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 133
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1522
1522. زید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے۔ وہاں ان کی قیام گاہ پر خیمے اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں، میں نے دریافت کیا: میں کہاں سے عمرے کے لیے احرام باندھوں؟انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن منازل اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیےحجفہ مقرر فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1522]
حدیث حاشیہ:
1۔
مواقیت، میقات کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ مقام ہے جہاں سے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔
ان مقامات سے گزرنے کے بعد احرام باندھنا درست نہیں۔
مواقیت اور اہل مواقیت کی تفصیل درج ذیل ہے:
ذو الحلیفہ اہل مدینہ جو شخص مقررہ مواقیت میں سے کسی ایک سے بھی نہ گزرے وہ جس میقات کے اندر رہتے ہوں وہ اپنی رہائش گاہ ہی سے احرام باندھ لیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔
حدود حرم میں عارضی طور پر مقیم حضرات عمرے کے وقت حدود حرم سے باہر نکل کر میقات سے احرام باندھیں۔
جحفہ اہل شام قرن المنازل اہل نجد یلملم اہل یمن ذات عرق اہل عراق 2۔
جو لوگ حج یا عمرے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں وہ احرام باندھے بغیر بھی میقات سے گزر کر مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1522
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1525
1525. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہیں اور اہل شام جحفہ سے، نیز اہل نجد قرن منازل سے احرام کی نیت کریں۔ “ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اہل یمن یلملم سے تلبیہ کہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1525]
حدیث حاشیہ:
(1)
میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج اور عمرے کا احرام باندھا جاتا ہے اور احرام کے بغیر وہاں سے گزرنا جائز نہیں۔
یہ پابندی صرف حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے ہے۔
(2)
میقات کی دوقسمیں ہیں:
٭میقات زمانی:
اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔
عموما ماہ شوال ہی میں حج کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، اس لیے شوال، ذوالقعدہ اورذوالحجہ کے پہلے دس دن میقات زمانی اور حج کے مہینے کہلاتے ہیں۔
٭میقات مکانی:
اس سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں سے حج وعمرہ کرنے والوں کو احرام کے بغیر گزرنا منع ہے۔
ان مقامات کی تفصیل حدیث میں مذکور ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ احرام کی نیت میقات سے پہلے نہیں کرنی چاہیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں سے قبل نہیں باندھنا چاہیے۔
والله أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1525
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1531
1531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1531]
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے ذات عرق کو حضرت عمرؓ نے مقرر فرمایا تھا لیکن حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو مقرر فرمایا تھا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1739)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں بھی اہل عراق کے لیے ذات عرق کے بطور میقات مقرر ہونے کا ذکر ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2810 (1183)
ممکن ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس میقات کو مقرر کیا تھا، انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو یا اگر پہنچی ہے تو انہوں نے اسے ضعیف خیال کیا ہو۔
بہرحال راجح بات یہی ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی میقات مقرر فرمایا تھا اگرچہ آپ کے عہد مبارک میں عراق وغیرہ فتح نہیں ہوا تھا لیکن آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ دور دراز تک اسلامی حکومت ہو گی، اس لیے آپ نے پیش بندی کے طور پر اسی وقت ذاتِ عرق کو عراق کا میقات مقرر کر دیا۔
(فتح الباري: 491/3)
جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا وہ روایت صحیح نہیں۔
(ضعیف سنن أبي داود، حدیث: 381)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1531
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7344
7344. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل نجد کے لیے مقام قرن اہل شام کے لیے مقام حجفہ اور اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا۔ سیدنا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں: یہ تو میں نے خود نبی ﷺ سے سنا ہے، البتہ مجھے یہ بات بھی پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اہل یمن کے لیے یلملم میقات ہے۔“ ان کے سامنے عراق کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس وقت عراق نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7344]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دور میں عراق کسریٰ کے قبضے میں تھا۔
وہاں کے لوگ مسلمان نہیں تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے کوئی میقات مقرر نہیں کیا۔
اس وقت شام وغیرہ کے لوگ اسلام میں داخل ہوچکے تھے، اس لیے ان کے مقام جحفہ میقات مقرر کیا۔
2۔
حدیث میں ہے کہ جب کوفہ اور بصرہ فتح ہوئے تو وہاں کے باشندے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے، انھوں نے عرض کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے قرن المنازل کو میقات مقرر کیا ہے جو ہمارے راستے سے بہت دور پڑتا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بالمقابل مقام ذات عرق کو اہل عراق کے لیے میقات مقرر فرمایا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1531)
بہرحال اس حدیث میں ان میقات کی عظمت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7344