اور ابو حمید ساعدی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں (قیامت کے دن اس حال میں) وہ شخص دکھلا دوں گا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہو گی۔ (سورۃ مومنون میں لفظ) «جؤار»( «خوار» کے ہم معنی) «تجأرون»(اس وقت کہتے ہیں جب) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: Q1460]
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے معرور بن سوید سے بیان کیا ‘ ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کر کے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔ (اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابوصالح سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ باب اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی) اس کو دو گنا ثواب ملے گا ‘ ناطہٰ جوڑنے اور صدقے کا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1460]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1460
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے باب کا مطلب یعنی گائے بیل کی زکوٰۃ دینے کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اس امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے۔ مسلم کی روایت میں اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوٰۃ نہ ادا کرتا ہو۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوٰۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی۔ اس لیے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوٰۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1460
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1460
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کی زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو لوگوں کا حساب مکمل ہونے تک عذاب دیا جائے گا، ان جانوروں میں گائے کا بھی ذکر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے گائے کی زکاۃ کا وجوب ثابت کیا ہے لیکن اس کے متعلق زکاۃ کی کیفیت کو بیان نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک ایسی کوئی حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہیں تھی، البتہ امام ترمذی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل ؒ سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں چالیس گایوں سے مسنہ اور تیس سے ایک تبیعہ بطور زکاۃ وصول کروں۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 623) اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ رسول الله ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیس گایوں میں سے ایک سال کا بچھڑا (تبیعہ) جو دوسرے سال کی عمر میں ہو اور چالیس گایوں میں سے دو سال کا بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) جو تیسرے سال کی عمر میں ہو، زکاۃ ہے۔ “(جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 622) بھینسوں پر بھی اسی شرح سے زکاۃ لاگو ہوئی، ان کی شرح زکاۃ اس طرح ہے۔ 1 تا 29 گایوں پر کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 30 تا 39 پر یک سالہ بچھڑا یا بچھڑی (تبیعہ) 3) 40 تا 59 پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) 4) 60 تا 69 پر یکسالہ دو بچھڑے یا بچھڑیاں 5) 70 تا 79 ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 6) 80 تا 89 دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 2 عدد 7) 90 تا 99 یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی 3 عدد ان کا اصول یہ ہے کہ ہر تیس عدد پر یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی اور ہر چالیس کے عدد پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی وصول کی جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط بھی ہیں: ٭ سال کا بیشتر حصہ وہ جنگل میں گھاس وغیرہ چرتی ہوں۔ ٭ وہ کاشت کاری وغیرہ کے کام آتی ہوں۔ ٭ اگر مستقل طور پر مالک کے خرچ پر گزارہ کرتی ہوں اور انہیں ذاتی استعمال کے لیے رکھا گیا ہے تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ اگر انہیں تجارت یا ڈیری فارم کے طور پر رکھا ہے تو ان کی آمدنی پر زکاۃ ہو گی۔ (3) امام بخاری ؒ نے بکیر کی حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسے امام مسلم ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اونٹ، گائے اور بکریوں کا ذکر ہے جن سے زکاۃ نہ دی گئی ہو۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2295(987)(4) امام بخاری ؒ نے گائے کے متعلق زکاۃ کو مؤخر بیان کیا ہے، کیونکہ عرب علاقے میں یہ بہت کم ہوتی ہیں، شاید کہیں اس کا نصاب مکمل ہوتا ہو، غالبا یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے صرف اس کے وجوب ہی کو بیان کیا ہے، دیگر تفاصیل ذکر نہیں کی ہیں۔ (فتح الباري: 407/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1460