ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ (حماد بن اسامہ) نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آ جائے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہو گا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہو جائیں گی کیونکہ مردوں کی کمی ہو جائے گی اور عورتوں کی زیادتی ہو گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1414]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1414
حدیث حاشیہ: قیامت کے قریب یا تو عورتوں کی پیدائش بڑھ جائے گی‘ مرد کم پیدا ہوں گے یا لڑائیوں کی کثرت سے مردوں کی قلت ہوجائے گی۔ ایسا کئی دفعہ ہوچکا ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1414
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1414
حدیث حاشیہ: (1) حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ پچاس عورتیں ایک آدمی کے زیر انتظام زندگی بسر کریں گی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 81)(2) مذکورہ حدیث میں چالیس کی تعداد زائد کی نفی نہیں کرتی۔ اس وقت فتنوں کی کثرت سے مرد قتل ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی، پھر اس سے جو نتائج مرتب ہوں گے وہ اہل نظر پر مخفی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ عورتیں اس شخص کو محارم اور اقارب سے ہوں گی۔ غالبا ایسا حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ دجال کو قتل کر دیا جائے گا اور اس وقت آسمان سے برکات نازل ہوں گی۔ بعض لوگوں نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور پر محمول کیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ اس دور میں فتنوں کی وجہ سے مردوں کا قتل عام نہیں ہوا کہ پچاس پچاس عورتوں کا ایک ہی منتظم ہو۔ اس کی ایک تیسری توجیہ بھی ہے کہ مذکورہ حدیث میں واؤ جمع کے لیے نہیں کہ کثرت مال اور قتل نساء کا زمانہ ایک ہی ہو، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دونوں واقعات قیامت سے پہلے پہلے وقوع پذیر ہوں گے اگرچہ ان کا زمانہ مختلف ہو گا۔ اس توجیہ کے پیش نظر کثرت مال حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں ہوا اور تلف نساء کا معاملہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں ہو گا، اس دور میں اہل حرب مردوں کا قتلِ عام ہو گا اور عورتیں کثرت سے بچ جائیں گی۔ عورتوں کی کثرت شاید اس بنا پر ہو کہ لڑکیوں کی شرح پیدائش لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہو جائے اور اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ نئے جوڑوں کے ہاں پہلے بچیاں پیدا ہوتی ہیں، مدت کے بعد اس چمن میں کوئی دیدہ ور پیدا ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1414