الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ:
1. باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔
حدیث نمبر: 1400
فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ , وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ , وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَعَرَفْتُ، أَنَّهُ الْحَقُّ".
اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کر دے) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1400]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1400 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1400  
حدیث حاشیہ:
وفات نبی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قبائل جو پہلے اسلام لاچکے تھے، اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا، لہٰذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے۔
بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے، جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے، مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے اور قرآن شریف کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوٰۃ لینا آنحضرت ﷺ سے خاص تھا۔
کیونکہ اللہ نے فرمایا۔
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ﴾ (التوبة: 103)
اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہوسکتی۔
وحسابه علی اللہ کا مطلب یہ کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی زبان سے لا إله إلا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔
صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوٰة والزکوٰة کا مطلب یہ کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے۔
حضرت عمر ؓ نے بھی بعد میں حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہوگئے اور زکوٰۃ دینے والوں پر جہاد کیا۔
یہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی فہم وفراست تھی۔
اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہوجاتا مگر حضرت صدیق اکبر ؓ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچالیا۔
آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ کوئی شخص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا جب تک وہ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہو اور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے۔
جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طورپر اسلام سے خارج اور کافر ہے۔
نماز کے لیے تو صاف موجود ہے من ترك الصلوٰة متعمدا فقد کفر جس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کردی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔
عدم زکوٰۃ کے لیے حضرت صدیق اکبر ؓ کا فتویٰ جہاد موجود ہے اور حج کے متعلق فاروق اعظم کا وہ فرمان قابل غور ہے جس میں آپ نے مملکت اسلامیہ سے ایسے لوگوں کی فہرست طلب کی تھی جو مسلمان ہیں اورجن پر حج فرض ہے مگر وہ یہ فرض نہیں ادا کرتے تو آپ نے فرمایا تھا کہ ان پر جزیہ قائم کردو‘ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1400   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1400  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی وفات پر لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ کچھ لوگ دین اسلام سے مرتد ہو کر کفر کی طرف لوٹ گئے اور شرائع اسلام کا انکار کر دیا، یعنی انہوں نے بت پرستی اختیار کر لی۔
٭ بعض لوگ ختم نبوت کے منکر ہو گئے۔
وہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بطور متنبی ماننے لگے اور ان کے پیروکار ہو گئے۔
ان دونوں گروہوں سے ابوبکر ؓ نے قتال کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔
ان سے قتال کرنے میں حضرت عمر ؓ بھی ان کے ہمنوا تھے۔
٭ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا تھا۔
ان کا موقف تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کو زکاۃ دینا ضروری نہیں۔
ان کے خلاف قتال کے متعلق حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کا اختلاف ہوا جس کا مذکورہ احادیث میں ذکر ہے۔
(2)
دراصل یہ لوگ باغی تھے، مگر اس زمانے میں انہیں باغیوں کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ مرتدین کے گروہ میں شامل تھے۔
اس بنا پر انہیں بھی مرتدین میں شامل کیا گیا۔
حضرت علی ؓ کے دور میں چونکہ اس قسم کا اختلاط نہیں تھا، اس لیے انہیں باغی قرار دے کر ان سے جنگ کی گئی۔
حضرت ابوبکر ؓ نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کیا جس کا انکار بالاتفاق کفر ہے اور حضرت عمر ؓ نے عموم حدیث سے استدلال کیا۔
حضرت ابوبکر ؓ نے صرف قیاس ہی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ حق اسلام کے الفاظ سے بھی اپنےموقف کو مضبوط کیا۔
اس وضاحت کے بعد حضرت عمر ؓ بھی مطمئن ہو گئے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے وجوب زکاۃ پر استدلال کیا ہے جو أظهر من الشمس ہے۔
(4)
واضح رہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں تا وقتیکہ وہ اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں، جب یہ کام کرنے لگیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے، پھر ان کا باطنی حساب اللہ کے سپرد ہو گا۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 25)
یہ حدیث حضرت ابوبکر ؓ کو مستحضر نہ تھی، اگر یاد ہوتی تو وہ قیاس کے بجائے اسے پیش کرتے اور نہ یہ حدیث حضرت عمر ؓ ہی کے سامنے تھی وگرنہ وہ اس کے ہوتے ہوئے حدیث کے عموم سے فائدہ نہ اٹھاتے۔
عین ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جن سے یہ فیصلہ کن حدیث مروی ہے بحث و تکرار کے وقت وہاں موجود نہ ہوں، اگر وہاں موجود ہوتے تو اسے پیش کر کے اس نزاع کو فورا ختم کیا جا سکتا تھا۔
بہرحال زکاۃ ادا کرنا فرض ہے اور اس کا انکار کفر اور ادائیگی کے متعلق تاویل باعث جنگ و قتال ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
جو فرائض کو قبول کرنے سے انکار کر کے ارتداد کی طرف منسوب ہو اس کے خلاف قتال کرنا۔
(صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، باب: 3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1400