اور حجاج بن منہال نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ‘ ان سے امام حسن بصری نے کہا کہ ہم سے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اسی (بصرے کی) مسجد میں حدیث بیان کی تھی نہ ہم اس حدیث کو بھولے ہیں اور نہ یہ ڈر ہے کہ جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ باندھا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو زخم لگا ‘ اس نے (زخم کی تکلیف کی وجہ سے) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں، میں اس پر جنت حرام کرتا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1364]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1364
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے دوسرے مقام پر اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک آدمی کو زخم لگا تو وہ گھبرا اٹھا۔ اس نے چھری لے کر اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس کا خون بند نہ ہوا حتی کہ وہ مر گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھ سے سبقت چاہی، اس لیے میں نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے۔ “(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3463) خودکشی کرنے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے مجھ سے جلدی کی اور صبر نہ کیا ورنہ میں خود اسے موت دیتا۔ یہ ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اس کی موت بھی اپنے مقررہ وقت ہی پر ہوئی ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ صبر و ہمت سے کام لیتا اور اپنی موت کو پروردگار کے حوالے کرتا، لیکن اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے موت کے وقت سے اسے مطلع نہیں کیا تھا، لہذا اس سزا کا حقدار ٹھہرا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ (2) اگر وہ خودکشی کو جائز اور حلال سمجھتا تھا تو اس کی سزا دائمی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے پہلے اس پر جنت حرام ہو گی۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اسے تہدید و تغلیظ پر محمول کیا جائے، کیونکہ جنت کافر پر حرام ہے اور خودکشی کرنے والا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ مذکورہ حدیث بھی اس کے کفر پر دلالت نہیں کرتی۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1364