پھر ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی۔ انہیں زہری نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے جاتے تھے کہ ان میں قرآن زیادہ کس نے حاصل کیا ہے؟ جس کی طرف اشارہ کر دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لحد میں اسی کو دوسرے سے آگے بڑھاتے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد اور چچا کو ایک ہی کمبل میں کفن دیا گیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1348]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1348
حدیث حاشیہ: مسلک راجح یہی ہے جو حضرت امام نے بیان فرمایا کہ شہید فی سبیل اللہ پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1348
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1348
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ضرورت کے وقت دو آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا پڑے تو ان میں سے جسے قرآن زیادہ یاد ہو اسے لحد میں آگے اور پہلے رکھا جائے اور دوسرے کو بعد میں اور اس کے پیچھے رکھا جائے، جیسا کہ زندگی میں جماعت کے وقت جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے امام بنایا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس کے مقتدی ہوتے ہیں۔ (فتح الباري: 271/3)(2) اس حدیث سے قرآن کریم کے قاری اور حافظ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، ان کے ساتھ علوم شریعت کے ماہر اور تقویٰ و طہارت کے حامل کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 272/3)(3) طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی اور چچا محترم کو دو چادروں میں کفن دیا گیا تھا۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو ممکن ہے کہ ایک چادر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو اور ایک ایک حصہ بطور کفن استعمال کیا گیا ہو۔ (4) واضح رہے کہ جنہیں ایک چادر میں کفن دیا گیا انہیں دفن بھی اکٹھا کیا گیا تھا اور روایت مذکور میں حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کے ساتھ عمرو بن جموح کو کفن دیا گیا تھا۔ یہ حضرت جابر ؓ کے چچا نہیں بلکہ چچا زاد بھائی تھے۔ آپ نے تعظیم و تکریم کے طور پر انہیں چچا کہا ہے۔ (فتح الباري: 275/3)(5) آخر میں امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث کا ایک طریق بیان کیا ہے، ان میں فرق یہ ہے کہ پہلی حدیث میں لیث نے امام زہری اور حضرت جابر ؓ کے درمیان ایک واسطہ عبدالرحمٰن بن کعب ذکر کیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں امام اوزاعی نے اس واسطے کو حذف کر دیا ہے اور سلیمان مذکور نے مجہول واسطہ ذکر کیا ہے۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1348