پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی تصدیق کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد خود سنا ہے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان اٹھایا۔ (سورۃ الزمر میں جو لفظ) «فرطت» آیا ہے اس کے یہی معنی ہیں میں نے ضائع کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1324]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1324
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو لفظ وارد ہوئے ہیں، اگر حدیث میں کوئی وہی لفظ آجاتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں عبداللہ بن عمر ؓ کے کلام میں فرطت کا لفظ آیا اور قرآن میں بھی ﴿فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ﴾(الزمر: 56) آیا ہے تو اس کی بھی تفسیر کردی، یعنی میں نے اللہ کا حکم کچھ ضائع کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی نسبت کہا‘ انہوں نے بہت حدیثیں بیان کیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ جھوٹے ہیں۔ بلکہ ان کو یہ شبہ رہا کہ شاید ابوہریرہ ؓ بھول گئے ہوں یا حدیث کا مطلب اور کچھ ہو وہ نہ سمجھے ہوں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بھی ان کی شہادت دی تو ان کو پورا یقین آیا اور انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارے بہت سے قیراط اب تک ضائع ہوئے۔ حضرت امام کا مقصد باب اس شخص کی فضیلت بیان کرنا ہے جو جنازے کے ساتھ جائے‘ اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ قیراط ایک بڑا وزن مثل احد پہاڑ کے مراد ہے اور جو شخص دفن ہونے تک ساتھ رہے اسے دو قیراط برابر ثواب ملے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1324
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1324
حدیث حاشیہ: (1) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص میت کے دفن ہونے تک ساتھ رہتا ہے اسے دو قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے اور یہ دو قیراط دو بڑے پہاڑوں کی مانند ہیں۔ (حدیث: 1325) دنیا کا قیراط تو درہم کا بارہواں حصہ ہے، لیکن آخرت کا قیراط جس کے برابر ثواب دینے کا ان احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے وہ پہاڑ کے برابر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے لفظ تفريط کی مناسبت سے قرآنی آیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ﴾”ہائے افسوس! میں نے اللہ کا حکم ضائع کر دیا ہے۔ “(سورة الزمر: 56)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1324