ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے ‘ انہیں ان کے باپ ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے ‘ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر میسر آ سکی کہ اگر اس سے ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی (اسی طرح) شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1275]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1275
حدیث حاشیہ: حضرت مصعب ؓ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ، وہی ان کے کفن میں دے دی گئی۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حالانکہ حضرت عبدالرحمن روزہ دار تھے دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مالدار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاء کو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے مفت تقسیم فرما دیا۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1275
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1275
حدیث حاشیہ: (1) امام بخارى ؒ کی مراد یہ ہے کہ کفن کا انتظام و انصرام میت کے ترکے ہی سے کیا جائے، خواہ میت کا کل ترکہ اسی قدر ہو کہ جس سے کفن ہی کا بندوبست کیا جا سکے۔ اگر اس کے ترکے میں صرف ایک چادر ہو تو بھی اس سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے، جیسا کہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ترکے میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی جس میں انہیں کفن دیا جا سکتا۔ حضرت حمزہ ؓ کے متعلق اس سے پہلی حدیث میں ہے کہ ان کے ترکے میں بھی صرف ایک ہی چادر دستیاب ہو سکی اور وہ چادر بھی پورے جسم کے لیے ساتر نہ تھی بلکہ اس سے اگر سر ڈھانپا جاتا تو ان کے قدم ظاہر ہو جاتے اور جب قدم ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت کے پورے جسم کو ڈھانپنا ضروری نہیں، کیونکہ اگر ایسا کرنا ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ دوسرے ساتھیوں سے کپڑا لے کر ان کے قدموں کو ڈھانپ دیتے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ (2) اس حدیث سے صحابہ کرام ؓ کی دنیا سے بے رغبتی، تقویٰ شعاری اور پرہیزگاری کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ جب شہید ہوئے تو ان کا ترکہ کچھ بھی نہ تھا، صرف بدن کی ایک چادر تھی وہ بھی تمام جسم کو نہ ڈھانپ سکتی تھی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ بحالت روزہ تھے اور جب ان کے سامنے افطاری کے موقع پر طرح طرح کے کھانے پیش کیے گئے تو ان کے سامنے اپنے ساتھیوں کی زندگی کا نقشہ آ گیا اور اس قدر روئے کہ کھانا نہ کھا سکے اور اسے تناول کیے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے جو اپنی افطاریوں یا افطار پارٹیوں میں اسراف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کریں۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1275