ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف (قباء) کے لوگوں میں صلح کروانے تشریف لائے، اور جب نماز کا وقت ہو گیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اب تک نہیں تشریف لائے اس لیے اب آپ نماز پڑھائیے۔ انہوں نے فرمایا اچھا اگر تمہاری خواہش ہے تو میں پڑھا دیتا ہوں۔ خیر بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور نماز شروع کی۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا۔ (سہل نے) کہا کہ جانتے ہو «تصفيح» کیا ہے یعنی تالیاں بجانا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف بھی دھیان نہیں کیا کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صف میں موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا اور الٹے پاؤں پیچھے آ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ [صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة/حدیث: 1201]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1201
حدیث حاشیہ: اس روایت کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ اس میں سبحان اللہ کہنے کا ذکر نہیں اور شاید حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جو اوپر گزر چکا ہے اور اس میں صاف یوں ہے کہ تم نے تالیاں بہت بجائیں نماز میں کوئی واقعہ ہو تو سبحان اللہ کہا کرو تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ اب رہا الحمد للہ کہنا تو وہ حضرت ابو بکر ؓ کے اس فعل سے نکلتا ہے کہ انہوں نے نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کراللہ کا شکر کیا، بعضوں نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے تسبیح کو تحمید پر قیاس کیا تو یہ روایت بھی ترجمہ باب کے مطابق ہوگئی (وحیدي)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1201
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1201
حدیث حاشیہ: (1) نماز کا اول وقت نکلنے کے خدشے اور امام کی عدم دستیابی کے پیش نظر مقتدیوں میں سے صاحب علم و فضل آدمی جماعت کروا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عمل موجود ہے۔ (2) ”حضرت ابوبکر دوران نماز میں ادھر ادھر بالکل نہیں دیکھتے تھے“ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کامل توجہ اور حضور قلب سے پڑھنی چاہیے۔ (3) اس روایت میں دورانِ نماز صرف الحمدللہ کہنے کا ذکر ہے، سبحان اللہ کہنا اگرچہ اس روایت میں نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے خود ہی اس روایت کو دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا، جب تمہیں نماز میں کوئی ماجرا پیش آتا ہے تو تالیاں بجانا شروع کر دیتے ہو، یہ کام تو صرف عورتوں کے لیے ہے، لہذا جس کسی کو دوران نماز میں کوئی ماجرا پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے۔ “(صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث: 1218) اس روایت سے دوران نماز میں سبحان اللہ کہنے کا جواز معلوم ہوا۔ ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی اگرچہ سبحان اللہ کہنے سے دوسروں کو متوجہ کرنا مقصود ہو۔ (4) اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں کو تالی بجانی چاہیے، جیسا کہ امام بخاری ؒ خود اس کے متعلق ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔ (فتح الباري: 90/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1201