ان سے (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ) میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہونے کے بعد دو ہلکی رکعتیں (سنت فجر) پڑھتے اور یہ ایسا وقت ہوتا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں جاتی تھی۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو کثیر بن فرقد اور ایوب نے بھی نافع سے روایت کیا اور ابن ابی الزناد نے اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ سے، انہوں نے نافع سے روایت کیا۔ اس میں «في بيته» کے بدل «في أهله» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1173]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1173
حدیث حاشیہ: یہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس لیے کہا کہ فجر سے پہلے اور عشاء کی نماز کے بعد اور ٹھیک دوپہر کو گھر کے کام کاجی لوگوں کو بھی اجازت لے کر جانا چاہیے، اس وقت غیر لوگ آپ ﷺ سے کیسے مل سکتے۔ اس لیے ابن عمر ؓ نے ان سنتوں کا حال اپنی بہن ام المؤمنین حفصہ ؓ سے سن کر معلوم کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1173
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1173
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مذکورہ سنتیں تنہا پڑھی تھیں۔ معیت سے مراد صرف مقدار میں متابعت ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ نے انہیں رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں ادا کیا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ چونکہ دن کے اوقات میں لوگوں کے ساتھ مصروف گفتگو ہوتے، اس لیے دن کے وقت فرض نماز کے بعد سنتیں مسجد میں ادا کرتے تھے جبکہ رات کے اوقات میں اپنے گھر میں ہوتے اور گھر ہی میں سنتیں ادا کرتے۔ جمعہ پڑھانے کے بعد جلدی گھر واپس آ جاتے اور قیلولہ فرماتے، اس لیے جمعہ کے بعد کی سنتیں بھی گھر میں ادا کرتے جبکہ ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے اور اس کے بعد سنتوں کو مسجد میں ادا کرتے تھے۔ (فتح الباري: 66/3) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ظہر سے پہلے چار سنت پڑھنے کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1888(730) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو سنت فجر پڑھتے نہیں دیکھا، انہیں اپنی بہن حضرت حفصہ ؓ کے حوالے سے بیان کیا اور معذرت کی کہ اس وقت میں خود رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ آپ اس وقت مخلوق سے قطع تعلق ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ واللہ أعلم۔ (2) آخر میں امام بخاری ؒ نے کثیر بن فرقد کی متابعت بیان کی ہے جو ہمیں متصل سند سے دستیاب نہیں ہو سکی، البتہ ایوب کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1180)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1173