اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں (سورۃ مزمل میں) فرمایا اے کپڑا لپیٹنے والے! رات کو (نماز میں) کھڑا رہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم «سبحا طويلا» تک۔ اور فرمایا کہ اللہ پاک جانتا ہے کہ تم رات کی اتنی عبادت کو نباہ نہ سکو گے تو تم کو معاف کر دیا۔ «واستغفروا الله ان الله غفور رحيم» تک۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جو لفظ «ناشئة الليل» ہے تو «نشأ» کے معنی حبشی زبان میں کھڑا ہوا اور «وطاء» کے معنی موافق ہونا یعنی رات کا قرآن کان اور آنکھ اور دل کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: Q1141]
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینہ میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ میں روزہ ہی نہیں رکھیں گے اور اگر کسی مہینہ میں روزہ رکھنا شروع کرتے تو خیال ہوتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس مہینہ کا ایک دن بھی بغیر روزہ کے نہیں رہ جائے گا اور رات کو نماز تو ایسی پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے سوتا دیکھ لیتے۔ محمد بن جعفر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان اور ابوخالد نے بھی حمید سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1141]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1141
حدیث حاشیہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ساری رات سوتے بھی نہیں تھے اور ساری رات جاگتے اور عبادت بھی نہیں کرتے تھے۔ ہر رات میں سوتے اور عبادت بھی کرتے تو جو شخص آپ کو جس حال میں دیکھنا چاہتا دیکھ لیتا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری رات جاگنا اور عبادت کرنا یا ہمیشہ روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ ان کو اتنا شعور نہیں کہ ساری رات جاگتے رہنے سے یا ہمیشہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہو جاتی ہے پھر اس کو عبادت میں کوئی تکلیف نہیں رہتی۔ مشکل یہی ہے کہ رات کو سونے کی عادت بھی رہے اسی طرح دن میں کھانے پینے کی اورپھر نفس پر زور ڈال کر جب ہی چاہے اس کی عادت توڑے۔ میٹھی نیند سے منہ موڑے۔ پس جو آنحضرت ﷺ نے کیا وہی افضل اور وہی اعلیٰ اور وہی مشکل ہے۔ آپ کی نو بیویاں تھیں آپ ﷺ ان کا حق بھی ادا فرماتے، اپنے نفس کا بھی حق ادا کرتے۔ اپنے عزیز و اقارب اور عام مسلمانوں کے بھی حقوق ادا فرماتے۔ اس کے ساتھ خدا کی بھی عبادت کرتے، کہیے اس کے لیے کتنا بڑا دل اور جگر چاہیے۔ ایک سونٹا لے کر لنگوٹ باندھ کر اکیلے دم بیٹھ رہنا اور بے فکری سے ایک طرف کے ہوجانا یہ نفس پر بہت سہل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1141
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1141
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت سے امام بخاری ؒ نے رسول اللہ ﷺ کے حق میں نماز تہجد کا عدم وجوب ثابت کیا ہے، کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کبھی کبھی پوری رات سو کر گزار دیتے تھے۔ اگر قیام اللیل واجب ہوتا تو آپ اس کی پابندی ضرور کرتے۔ (فتح الباري: 29/3)(2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رات نو نفل پڑھنا محوِ استراحت ہونا رات کے مختلف اوقات میں تھا۔ جو شخص آپ کو جس حالت میں دیکھنا چاہتا وہ دیکھ لیا کرتا تھا۔ یہ حضرت انس ؓ کا اپنا مشاہدہ ہے جو حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے خلاف نہیں کہ آپ مرغ کی آواز سن کر بیدار ہو جاتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے چشم دید حالات بیان کیے ہیں اور آپ رات کی نماز عموماً گھر میں پڑھتے تھے جبکہ حضرت انس ؓ کی حدیث اس کے علاوہ پر محمول ہے۔ دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 31/3)(3) ابو خالد احمر کی اس متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1973) سلیمان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حمید راوی نے حضرت انس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے روزے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1972)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1141