ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے طاؤس سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی جمرات کی رمی کرتے ہوئے کسی جمرہ کو سات کی بجائے چھ کنکریاں مار دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک مٹھی کے برابر گندم صدقہ کر دے، اس کے بعد میں مجاہد سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا اور طاؤس کا جواب بھی ذکر کر دیا، انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے، کیا انہیں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے جو حج کیا تھا، اس میں جمرات کی رمی کرنے کے بعد جب ہم لوگ بیٹھے اور آپس میں بات چیت ہونے لگی تو کسی نے کہا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں، کسی نے سات کہا، کسی نے آٹھ اور کسی نے نو کہا، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1439]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، مجاهد لم يسمع من سعد بن أبى وقاص
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں اس سر زمین میں ہی نہ مرجاؤں جہاں سے میں ہجرت کر کے جا چکا تھا، اور جیسے سعد بن خولہ کے ساتھ ہوا تھا، اس لئے آپ اللہ سے میری صحت کے لئے دعا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”اے اللہ! سعد کو شفاء عطاء فرما۔“ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا، تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو وہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1440]
عامربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عمر مدینہ منورہ سے باہر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا (تو وہ پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے، کوئی اچھی خبر لے کر آیا ہو) اور کہنے لگے کہ اس سوار کے پاس اگر کوئی بری خبر ہے تو میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو کہنے لگے: اباجان! لوگ مدینہ منورہ میں حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں، اور آپ دیہاتیوں کی طرح اپنی بکریوں میں مگن ہیں؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: خاموش رہو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1441]
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو - جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے - اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔“ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھا لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا، اور یہ کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1442]
عامر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار ہو کر وادی عقیق میں اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہاں پہنچے تو ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اس سے وہ ساری لکڑیاں وغیرہ چھین لیں (جو اس نے کاٹی تھیں)، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو غلام کے مالکان ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دیں، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز مجھے عطاء فرمائی ہے، میں اسے واپس لوٹا دوں؟ اللہ کی پناہ! اور یہ کہہ کر انہوں نے وہ چیزیں واپس لوٹانے سے انکار کر دیا۔ فائدہ: اس کی وضاحت عنقریب حدیث نمبر 1460 میں آرہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1443]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے، اور اس کے فیصلے پر راضی رہے، اور ابن آدم کی بد نصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1444]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي حميد متفق على ضعفه
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے، جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1445]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناده ضعيف لضعف ابن ابي حميد
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔“ اور شاید یہ بھی فرمایا کہ ”لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1446]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ابن لهيعة سي الحفظ ولكنه توبع
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ ”میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1447]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن اخي سعد، ولاضطراب سنده
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ ”میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1448]