سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑے پر سوار کرایا یعنی اس کا مالک بنا دیا، جس کا نام غمرہ یا غمراء تھا، کچھ عرصے بعد وہی گھوڑا یا اس کا کوئی بچہ فروخت ہوتا ہوا ملا، چونکہ اس کی نسبت اسی گھوڑے کی طرف تھی جسے انہوں نے صدقہ کر دیا تھا اس لئے اسے دوبارہ خریدنے سے انہیں منع کر دیا گیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1410]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے اور واپس آ کر ٹیلوں میں بیج بکھیرنے لگ جاتے تھے، اس موقع پر ہمیں سوائے اپنے قدموں کی جگہ کے کہیں سایہ نہ ملتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1411]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ابن جندب لم يدرك الزبير
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم سے پہلے جو امتیں گذر چکی ہیں ان کی بیماریاں یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر بھی سرایت کر گئی ہیں، اور بغض تو مونڈ دینے والی چیز ہے، بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کر لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو رواج دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1412]
حكم دارالسلام: قسم السلام صحيح لغيره، وسائره حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، يعيش لم يدرك الزبير
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جس طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہوا سنتا ہوں، آپ کو نہیں سنتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔“(اس لئے میں ڈرتا ہوں)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1413]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وهو حديث متواتر، خ : 107
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! آپ لوگ کس مقصد کی خاطر آئے ہیں؟ آپ لوگوں نے ایک خلیفہ کو ضائع کر دیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے، اب آپ ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے تھے: «﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ [الأنفال: 25] »”اس آزمائش سے بچو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں کی نہیں ہو گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ عمومی ہوگی)“، لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہوگا، یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آ گئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1414]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے بالوں کی سفیدی کو تبدیل کر سکتے ہو لیکن یہودیوں کی مشابہت اس موقع پر بھی اختیار کرنے سے بچو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1415]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف تفرد برفعه ابن كناسة و اصحاب هشام رووه عن عروة مرسلاً، وهو الصواب
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ لیلہ نامی جگہ سے آ رہے تھے، جب ہم لوگ بیری کے درخت کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرن اسود نامی پہاڑ کی ایک جانب اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وادی نخب کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور کچھ دیر کھڑے رہے، لوگ بھی سب کے سب وہیں رک گئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”وج - جو کہ طائف کی ایک وادی کا نام ہے - کا شکار اور ہر کانٹے دار درخت حرم میں داخل ہے، اور اسے شکار کرنا یا کاٹنا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لئے حرام ہے۔“ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف پہنچنے اور بنو ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1416]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اس دن - جبکہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خدمت کی جو انہوں نے کی، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھک کر بیٹھ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کمر پر سوار ہوگئے - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کر لیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1417]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی، قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ وہ خاتون انہیں دیکھ سکے، اس لئے فرمایا کہ ”اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔“ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک ان کے پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر دو ہتڑ مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا، وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو، میں تم سے نہیں بولتی، میں نے عرض کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں، یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے، تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ جب ہم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا، ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو کفن کا ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو، اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو کفن دیں گے، اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے، ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں کفن دے دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1418]
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کا ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے - جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پانی کی اس نالی میں اختلاف رائے ہو گیا جس سے وہ دونوں اپنے اپنے کھیت کو سیراب کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا: ”زبیر! تم اپنے کھیت کو سیراب کر کے اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو“، انصاری کو اس پر ناگواری ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں ناں اس لئے آپ یہ فیصلہ فرما رہے ہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”اب تم اپنے کھیت کو سیراب کرو اور جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو۔“ گویا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوا دیا، جبکہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں ان کے لئے اور انصاری کے لئے گنجائش اور وسعت کا پہلو تھا، لیکن جب انصاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح حکم کے ساتھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: واللہ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیت اسی واقعے سے متعلق نازل ہوئی ہے: «﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [النساء: 65] »”آپ کے رب کی قسم! یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے اختلافات میں آپ کو ثالث مقرر نہ کر لیں، پھر اس فیصلے کے متعلق اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے مکمل طور پر تسلیم نہ کریں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1419]