بجالہ کہتے ہیں کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ان کی وفات سے ایک سال پہلے خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ ہر جادوگر کو قتل کر دو، مجوس میں جن لوگوں نے اپنے محرم رشتہ داروں سے شادیاں کر رکھی ہیں، ان میں تفریق کرا دو، اور انہیں زمزمہ (کھانا کھاتے وقت مجوسی ہلکی آواز سے کچھ پڑھتے تھے) سے روک دو۔ چنانچہ ہم نے تین جادوگر قتل کیے، اور کتاب اللہ کی روشنی میں مرد اور اس کی محرم بیوی کے درمیان تفریق کا عمل شروع کر دیا۔ پھر جزء نے ایک مرتبہ بڑی مقدار میں کھانا تیار کروایا، اپنی ران پر تلوار رکھی اور مجوسیوں کو کھانے کے لئے بلایا، انہوں نے ایک یا دو خچروں کے برابر وزن کی چاندی لا کر ڈھیر کر دی اور بغیر زمزمے کے کھانا کھا لیا۔ نیز پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے لیکن جب سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس بات کی گواہی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر نامی علاقے کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا تو انہوں نے بھی مجوسیوں سے جزیہ لینا شروع کر دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ بجالہ نے مصعب کے ساتھ سنہ 70ھ میں حج کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1657]
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے“؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1658]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3094، م: 1757 بدون ذكر طلحة.
عبداللہ بن قارظ ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے ان کے یہاں گئے، وہ بیمار ہوگئے تھے، سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ تمہیں قرابت داری نے جوڑا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جو اسے توڑے گا، میں اسے توڑ کر پاش پاش کر دوں گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1659]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد معلول، وقد اضطرب أصحاب يحيى عليه فيه.
نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ اپنے والد صاحب کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو اور وہ بھی ماہ رمضان کے بارے میں، انہوں نے کہا: اچھا، میرے والد صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے اس کا قیام سنت قرار دیا ہے، جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور تراویح ادا کرے، وہ گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے وہ بچہ جسے اس کی ماں نے آج ہی جنم دیا ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1660]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، النضر بن شيبان ضعيف وفي قول أبى سلمة: «حدثني أبى» نظر، لأن أبا سلمة لم يصح سماعه من أبيه.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہو، اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہو جاؤ۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1661]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضف ابن لهيعة.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، میں بھی پیچھے پیچھے چلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہو گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کر دی اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی، میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر فرمایا: ”عبدالرحمن! کیا ہوا؟“ میں نے اپنا اندیشہ ذکر کر دیا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرئیل نے مجھ سے کہا ہے کہ کیا میں آپ کو خوشخبری نہ سناؤں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر اپنی رحمت نازل کروں گا، اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا میں اس پر سلام پڑھوں گا، یعنی اسے سلامتی دوں گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1662]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو الحويرث فيه ضعف من قبل حفظه.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، (میں بھی پیچھے پیچھے چلا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں داخل ہو گئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کر دی اور اتنا طویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی۔ میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر فرمایا: ”کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: عبدالرحمن ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبدالرحمن! کیا ہوا؟“ میں نے اپنا اندیشہ ذکر کر دیا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرئیل میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمت نازل کروں گا، اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا میں اس پر سلام پڑھوں گا، یعنی اسے سلامتی دوں گا، اس پر میں نے بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1664]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبد الواحد بن محمد مجهول، ولعله لم يسمع من جده عبدالرحمن بن عوف
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے، اتنی دیر میں نماز کا وقت ہو گیا، لوگوں نے نماز کھڑی کر دی اور سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر امامت فرمائی، پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آگئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ ان کی اقتداء میں ایک رکعت ادا کی اور سلام پھیر کر فرمایا: ”تم نے اچھا کیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1665]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رشدين بن سعد ضعيف عندالجمهور.
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ، اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1666]