سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”دو نمازیں ایسی ہیں جن کے بعد کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے، نماز فجر، جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جائے، اور نماز عصر، جب تک سورج غروب نہ ہو جائے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1469]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، معاذ التيمي لم يرو عنه غير سعد بن إبراهيم، ذكره ابن حبان فى الثقات وفي صحيحه
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1471]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کر لیا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1472]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1473]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد حسن فى الشواهد
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے (تین مرتبہ فرمایا)“، پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر میرے چہرے، سینے اور پیٹ پر پھیرا اور یہ دعا کی کہ ”اے اللہ! سعد کو شفاء دے، اور اس کی ہجرت کو تام فرما۔“ مجھے آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس ہوتی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1474]
ایک مرتبہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: «لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ» تو فرمایا کہ (جس کی پکار پر تم لبیک کہہ رہے ہو) وہ بلندیوں والا ہوگا، لیکن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کبھی یہ لفظ نہیں کہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1475]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي سلمة لم يدرك سعداً
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔“ وکیع نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی سے نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1476]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبدالله بن أبي نهيك لايعرف
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو، اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1477]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبدالرحمن ضعيف ثم هو لم يدرك سعداً وللجملة الأخيرة منه شاهد مرسل عن الحسن البصري وزياد بن جبير. ويؤيده حديث أبي هريره بلفظ : «اللهم ارزق آل محمد قوتاً.» أخرجه البخاري: 6460 ومسلم: 1055، واللفظ للبخاري .