سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 31]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دھوکہ باز، کوئی بخیل، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی بداخلاق جنت میں داخل نہ ہو گا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص بجائے گا وہ غلام ہو گا، بشرطیکہ وہ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 32]
عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کچھ بیمار ہو گئے، جب صحت یاب ہوئے تو لوگوں سے ملنے باہر تشریف لائے لوگوں سے معذرت کی اور فرمایا ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں، پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ دجال ایک مشرقی علاقے سے خروج کرے گا جس کا نام ”خراسان“ ہو گا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمانوں کی طرح ہوں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 33]
اوسط کہتے ہیں کہ خلافت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گزشتہ سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا: میں اللہ سے درگزر اور عافیت کی درخواست کرتا ہوں، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی جنت میں ہو گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 34]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرات شیخین عنہما نے انہیں یہ خوشخبری دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح نازل ہوا ہے، اسی طرح اس کی تلاوت پر مضبوطی سے جما رہے، اسے چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ابن ام عبد یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت پر کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 35]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، البتہ اس میں «غضا» یا «رطبا» دونوں الفاظ آئے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 36]
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس چیز کی بڑی تمنا تھی کہ کاش! میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے پہلے یہ دریافت کر لیتا کہ شیطان ہمارے دلوں میں جو وساوس اور خیالات ڈالتا ہے، ان سے ہمیں کیا چیز بچا سکتی ہے؟ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکا ہوں، جس کا جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دیا تھا کہ تم وہی کلمہ توحید کہتے رہو جو میں نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کر دیا تھا، اس کلمہ کی کثرت ہی تمہیں ان وساوس سے نجات دلا دے گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 37]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، محمد بن جبير بن مطعم لم يسمع من عثمان، وأبو الحويرث مختلف فيه
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگو! انسان کو دنیا میں ایمان اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے ان دونوں چیزوں کی دعا کرتے رہا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 38]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الحسن البصري لم يدرك أبا بكر
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابہ کرام عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب قبر مبارک کی کھدوائی کا ارادہ کیا اور معلوم ہوا کہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ جن کا اصل نام زید بن سہل تھا اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور دوسرے کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس اور دعا کی کہ اے اللہ! اپنے پیغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرما لے، چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانے والے آدمی کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آ گیا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 39]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف حسين بن عبد الله
سیدنا عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے چند دن بعد عصر کی نماز پڑھ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی سے نکلا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک جانب تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا جو اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے میرے باپ قربان ہوں، یہ تو پورا پورا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہے علی کے مشابہہ تھوڑی ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 40]