ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، اور اس دوران کے میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں، اور انہیں میرے ہاتھ میں رکھ دیا گیا ہے۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5749]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (122) و مسلم (6/ 523)»
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر خصوصی عنایات
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا، اور جس قدر زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی وہاں تک میری امت کی حکومت پہنچے گی، مجھے دو خزانے عطا کیے گئے، سرخ اور سفید، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ عام قحط سالی کے ذریعے اسے ہلاک نہ کرے، ان کے باہمی دشمنوں کے سوا کسی اور دشمن کو ان پر مسلط نہ کرے کہ وہ ان کا مرکز (صدر مقام) تباہ کر دے اور بلا شبہ میرے رب نے فرمایا: اے محمد! میں جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ ٹل نہیں سکتا، میں نے آپ کو آپ کی امت کے بارے میں یہ عہد دے دیا کہ میں اسے قحط سالی میں مبتلا کر کے تباہ نہیں کروں گا، یہ بھی عہد دے دیا کہ ان پر ان کے باہمی دشمن کے علاوہ کوئی ایسا دشمن اس پر مسلط نہیں کروں گا جو ان کے مرکز کو تباہ کر دے، اگرچہ ان کے تمام دشمن متحد ہو کر ان پر حملہ کر دیں، البتہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قیدی بنائیں گے۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5750]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (19/ 2889)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعاؤں میں سے دو قبول اور ایک نہ قبول
سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرے تو آپ اس میں تشریف لے گئے، آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ (دو رکعتیں) پڑھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے طویل دعا کی، اور جب اس سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگی تھیں، اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے مجھے روک دیا، میں نے اپنے رب سے سوال کیا تھا کہ وہ میری امت کو قحط کے ساتھ ہلاک نہ کرے، اس نے یہ چیز مجھے عطا فرما دی، میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ وہ میری امت کو غرق کے ذریعے ہلاک نہ کرے، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا کر دی، اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ ان میں باہم لڑائی پیدا نہ کرے تو اس سے مجھے روک دیا گیا۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5751]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (20/ 2890)»
عطا بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفت کے متعلق بتائیں جو تورات میں مذکور ہے، انہوں نے فرمایا: ٹھیک ہے، اللہ کی قسم! آپ کی جو صفات قرآن کریم میں ہیں، ان میں سے بعض تورات میں مذکور ہیں، جیسا کہ: ”اے نبی! ہم نے آپ کو خوشخبری سنانے والا، ڈرانے والا اور اَن پڑھوں (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، آپ نہ تو بد اخلاق ہیں اور نہ سخت دل ہیں، آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں، بلکہ آپ درگزر کرتے ہیں، معاف کرتے ہیں، اور اللہ ان کی روح قبض نہیں کرے گا حتی کہ وہ ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرا لے، اور وہ ”لا الہ الا اللہ“ کا اقرار کر لیں اور وہ اس (کلمے) کے ذریعے اندھی آنکھوں کو قوت بینائی، بہرے کانوں کو قوت سماعت اور غلاف میں بند دلوں کو کھول دے گا۔ “ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5752]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (2125)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر، بروایت دارمی
اور اسی طرح دارمی نے عطاء عن ابن سلام کی سند سے اسی مثل روایت کیا ہے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ((نحن الآخرون .....))”باب الجمعۃ“ میں ذکر کی گئی ہے۔ صحیح، رواہ الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5753]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الدارمي (1/ 5 ح 6) حديث ’’نحن الآخرون‘‘ تقدم (1354)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو دعائیں قبول اور ایک قبول نہ ہوئی
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو اسے طویل کیا، صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، جبکہ آپ نے ایسی نماز (پہلے کبھی) نہیں پڑھائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے، یہ امید اور خوف والی نماز ہے، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کی درخواست کی: اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے روک دیا، میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ قحط کے ذریعے میری امت کو ہلاک نہیں کرے گا اس نے اسے شرف قبولیت بخشا، میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے علاوہ کسی اور دشمن کو ان پر مسلط نہیں کرے گا، اس نے یہ بھی پوری فرما دی اور میں نے اس سے یہ بھی درخواست کی کہ ان کی آپس میں لڑائی (خانہ جنگی) نہ ہو تو اس نے اس سے مجھے روک دیا۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5754]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2175 وقال: حسن صحيح) و النسائي (3/ 216. 217 ح 1639)»
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے تمہیں تین چیزوں سے محفوظ رکھا ہے، تمہارا نبی تمہارے لیے یہ بددعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ، اہل باطل، اہل حق پر غالب نہیں ہوں گے، اور تم گمراہی پر اکٹھے نہیں ہو گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5755]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4253) ٭ فيه شريح عن أبي مالک رضي الله عنه، و قال أبو حاتم الرازي: ’’شريح بن عبيد عن أبي مالک الأشعري: مرسل‘‘ (المراسيل ص90ت 327ب)»
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس امت پر دو تلواریں جمع نہیں کرے گا، ایک ان کی اپنی تلوار اور ایک اس کے دشمن کی تلوار (یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بھی ہو اور دشمن بھی ان پر حملہ آور ہو)۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5756]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4301) ٭ يحيي بن جابر: لم يلق عوف بن مالک رضي الله عنه فالسند منقطع .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. مخلوق میں سے حسب و نسب اور ذات کے اعتبار سے بہترین کون؟
عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (غصے کی حالت میں) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے گویا انہوں نے کچھ (نسب میں طعن) سنا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”میں کون ہوں؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں پیدا فرمایا، پھر اس نے ان کے قبیلے بنائے تو مجھے ان سب سے بہتر قبیلے میں پیدا فرمایا، پھر ان کو گھرانے گھرانے بنایا تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانے میں پیدا فرمایا، میں ان سے نفس و حسب کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور ان کے گھرانے کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5757]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3607. 3608 وقال: حسن) ٭ فيه يزيد بن أبي زياد: ضعيف مشھور .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کب دی گئی
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نبوت کے منصب سے کب نوازے گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدم ؑ روح اور جسم کے مابین تھے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفضائل والشمائل/حدیث: 5758]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الترمذي (3609 وقال: حسن صحيح غريب) [والفريابي في کتاب القدر (14) ] ٭ يعني أنه ﷺ کان نبيًا في التقدير قبل خلق آدم عليه السلام فالحديث متعلق بالتقدير، لا بخلق رسول الله ﷺ فافھمه فإنه مھم والحديث الآتي يؤيد ھذا التفسير .»