الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
--. پُل صراط کا بیان
حدیث نمبر: 5581
وَعَن أبي هُرَيْرَة أَنَّ النَّاسَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ غَيْرَ كَشْفِ السَّاقِ وَقَالَ: يُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِهِ وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ الرُّسُلُ وَكَلَامُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ. وَفِي جهنمَ كلاليب مثلُ شوك السعدان وَلَا يَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ يُوبَقُ بِعَمَلِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يُخَرْدَلُ ثُمَّ يَنْجُو حَتَّى إِذَا فَرَغَ اللَّهُ مِنَ الْقَضَاءِ بَيْنَ عِبَادِهِ وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ مِنَ النَّارِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَهُ مِمَّنْ كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَمر الْمَلَائِكَة أَن يخرجُوا من يَعْبُدُ اللَّهَ فَيُخْرِجُونَهُمْ وَيَعْرِفُونَهُمْ بِآثَارِ السُّجُودِ وَحَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَكُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْكُلُهُ النَّارُ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ قَدِ امْتَحَشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ وَيَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجنَّةِ والنارِ وَهُوَ آخرُ أهلِ النارِ دُخولاً الْجَنَّةَ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ قِبَلَ النَّارِ فَيَقُولُ: يَا رب اصرف وَجْهي عَن النَّار فَإِنَّهُ قد قَشَبَنِي رِيحُهَا وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا. فَيَقُولُ: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ أَفْعَلْ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ فَيَقُول: وَلَا وعزَّتكَ فيُعطي اللَّهَ مَا شاءَ اللَّهُ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النارِ فإِذا أقبلَ بِهِ على الجنةِ وَرَأى بَهْجَتَهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ قَدِّمْنِي عِنْدَ بَابِ الجنةِ فَيَقُول الله تبَارك وَتَعَالَى: الْيَسْ أَعْطَيْتَ الْعُهُودَ وَالْمِيثَاقَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنْتَ سَأَلْتَ. فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لَا أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ. فَيَقُولُ: فَمَا عَسَيْتَ إِنْ أُعْطِيتُ ذَلِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَهُ. فَيَقُولُ: لَا وَعِزَّتِكَ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَ ذَلِكَ فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَإِذَا بَلَغَ بَابَهَا فَرَأَى زَهْرَتَهَا وَمَا فِيهَا مِنَ النَّضْرَةِ وَالسُّرُورِ فَسَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَيْلَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مَا أَغْدَرَكَ أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ الْعُهُودَ وَالْمِيثَاقَ أَنْ لَا تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ. فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لَا تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ فَلَا يَزَالُ يَدْعُو حَتَّى يَضْحَكَ اللَّهُ مِنْهُ فَإِذَا ضَحِكَ أَذِنَ لَهُ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ. فَيَقُولُ: تَمَنَّ فَيَتَمَنَّى حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ أُمْنِيَّتُهُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: تَمَنَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا أَقْبَلَ يُذَكِّرُهُ رَبُّهُ حَتَّى إِذَا انْتَهَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ قَالَ اللَّهُ: لَكَ ذَلِكَ ومثلُه معَه وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَعِيدٍ: قَالَ اللَّهُ: لَكَ ذلكَ وعشرةُ أمثالِه. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا ہم روزِ قیامت اپنے رب کو دیکھیں گے؟ انہوں نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا مفہوم بیان کیا، البتہ پنڈلی کھولنے کا ذکر نہیں کیا، اور فرمایا: جہنم کے دونوں کناروں پر پل قائم کیا جائے گا، تمام رسولوں سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ اس (پل) کو عبور کروں گا، اس دن صرف رسول ہی کلام کریں گے اور اس دن رسولوں کا کلام یہی ہو گا: اے اللہ! سلامتی عطا فرمانا، اے اللہ سلامتی عطا فرمانا، اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے، اور ان (آنکڑوں) کے طول و عرض کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے، چنانچہ ان میں سے ایسے بھی ہوں گے جو ہلاک ہو جائیں گے، اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو کاٹ ڈالے جائیں گے پھر (گرنے سے) بچ جائیں گے، حتی کہ جب اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور وہ جہنم سے نکالنے کا ارادہ فرمائے گا تو وہ جنہیں اس سے نکالنے کا ارادہ فرمائے گا وہ ایسے ہوں گے جو یہ گواہی دیتے ہوں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ فرشتوں کو حکم فرمائے گا کہ اللہ کی عبادت کرنے والوں کو نکالیں، وہ انہیں نکالیں گے، اور وہ انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے، اور اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشانات (کی جگہ) کو کھائے، آگ انسان کے سجدوں کے نشانات کے سوا باقی تمام اعضاء کو کھا جائے گی، اور وہ آگ سے نکال لیے جائیں گے درآنحالیکہ وہ جل چکے ہوں گے پھر ان پر آب حیات بہایا جائے گا اور وہ ایسے نمودار ہوں گے جس طرح سیلابی مٹی سے دانہ اگ آتا ہے، جنت اور جہنم کے مابین ایک آدمی باقی رہ جائے گا، اور جنت میں داخل ہونے والا وہ آخری جہنمی ہو گا، اس کا چہرہ جہنم کی آگ کی طرف ہو گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! میرا چہرہ جہنم سے دوسری طرف کر دے، (کیونکہ) اس کی بدبو نے مجھے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کے شعلوں نے مجھے جلا دیا ہے، رب تعالیٰ فرمائے گا: کیا ایسا تو نہیں کہ اگر میں نے یہ کر دیا تو تو اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز کا سوال کر دے، وہ عرض کرے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں (کوئی اور سوال نہیں کروں گا)، وہ جو اللہ چاہے گا، اللہ کو عہد و میثاق دے گا تو اللہ اس کے چہرے کو آگ سے دوسری طرف پھیر دے گا، اور جب وہ جنت کی طرف منہ کر لے گا اور وہ اس کی رونق دیکھے گا تو جس قدر اللہ چاہے گا کہ وہ خاموش رہے تو وہ اس قدر خاموش رہے گا، پھر وہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے جنت کے دروازے کے قریب کر دے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے مجھ سے عہد و میثاق نہیں کیا تھا کہ تو اس سوال کے بعد کسی اور چیز کے متعلق سوال نہیں کرے گا؟ وہ عرض کرے گا: رب جی! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بد نصیب شخص نہ ہو جاؤں: چنانچہ وہ فرمائے گا: کیا ہو سکتا ہے کہ اگر میں تمہیں یہ عطا کر دوں تو تو اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا مطالبہ کر دے؟ وہ عرض کرے گا: تیری عزت کی قسم! (ایسے) نہیں، میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کا تجھ سے مطالبہ نہیں کروں گا، وہ اپنے رب کو، جو اللہ تعالیٰ چاہے گا عہد و میثاق دے گا، تو وہ اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دے گا، اور جب وہ اس کے دروازے پر پہنچ جائے گا، تو وہ اس کی تروتازگی، اور اس میں جو رونق و سرور دیکھے گا تو جس قدر اللہ چاہے گا کہ وہ خاموش رہے تو وہ خاموش رہے گا، پھر عرض کرے گا: رب جی! مجھے جنت میں داخل فرما دے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! تجھ پر افسوس ہے، تو کتنا بڑا وعدہ خلاف ہے! کیا تو نے عہد و میثاق نہیں دیا تھا کہ تو اس چیز کے علاوہ، جو میں نے تمہیں عطا کر دی، کوئی دوسری چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بد نصیب نہ بنا، وہ مسلسل دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس کی وجہ سے ہنس دے گا، جب وہ ہنس دے گا تو وہ اسے دخولِ جنت کی اجازت فرما دے گا، اور فرمائے گا: تمنا کر، وہ تمنا کرے گا حتی کہ جب اس کی تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو فلاں فلاں چیز کی تمنا کر، اس کا رب اسے یاد دلائے گا، حتی کہ جب یہ سب تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ فرمائے گا، یہ (جو تو نے تمنا کی) تیرے لیے ہے اور اتنی ہی مزید اس کے ساتھ (تجھے عطا کی جاتی ہیں)۔ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: اللہ فرمائے گا: یہ (جو تو نے تمنا کی) تیرے لیے ہے اور اس کی مثل دس گنا مزید (عطا کی جاتی ہیں)۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5581]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (806) و مسلم (299/ 182)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. سب سے آخر میں جنت میں آنے والا
حدیث نمبر: 5582
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَمْشِي مَرَّةً وَيَكْبُو مَرَّةً وَتَسْفَعُهُ النارُ مرّة فإِذا جاؤوها الْتَفَتَ إِلَيْهَا فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلْأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ اللَّهُ: يَا ابْنَ آدَمَ لَعَلِّي إِنْ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَى فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا. فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا؟ فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَيَيْنِ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ فَلِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا. فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا سَمِعَ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فيقولُ: أَي رَبِّ أَدْخِلْنِيهَا فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ مَا يصريني مِنْك؟ أيرضيك أَن أُعْطِيك الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا. قَالَ: أَيْ رَبِّ أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ: أَلا تسألونيّ ممَّ أضْحك؟ فَقَالُوا: مِم تضحك؟ فَقَالَ: هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: من ضحك رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ وَلَكِنِّي على مَا أَشَاء قدير. رَوَاهُ مُسلم
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا آدمی وہ ہو گا جو ایک بار چلے گا اور ایک بار منہ کے بل گرے گا اور ایک بار آگ اسے جھلسے گی، جب وہ اس (آگ) سے گزر جائے گا تو وہ اس کی طرف مڑ کر دیکھ کر کہے گا، بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے بچا لیا اور اللہ نے مجھے وہ چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی، اسے ایک درخت دکھایا جائے گا تو وہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے سائے سے سایہ حاصل کر سکوں، اور اس کے (پاس چشمے کے پانی سے) پانی پی سکوں، اللہ فرمائے گا: ابن آدم! شاید کہ میں وہ تجھے عطا کر دوں تو پھر تم اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کرو گے، وہ عرض کرے گا: رب جی! نہیں، وہ اس سے معاہدہ کرے گا کہ وہ اس سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، اور اس کا رب (سوال کرنے پر) اسے معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر وہ صبر نہیں کر سکے گا، وہ اس کو اس (درخت) کے قریب کر دے گا تو وہ اس کے سائے سے سایہ حاصل کرے گا اور اس کے (چشمے) سے پانی پیئے گا، پھر اسے ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو پہلے سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پی سکوں اور اس کے سایہ سے سایہ حاصل کر سکوں، اور میں اس کے علاوہ تجھ سے اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا، وہ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور چیز نہیں مانگے گا، اور وہ فرمائے گا: ہو سکتا ہے کہ میں تجھے اس کے قریب کر دوں تو پھر تو مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگ لے، وہ اس سے، اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہ مانگنے کا وعدہ کر لے گا، جبکہ اس کا رب اسے (دوبارہ سوال کرنے پر) معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر اس کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے گا، وہ اس کو اس کے قریب کر دے گا تو وہ اس کے سائے سے سایہ حاصل کرے گا، اور اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پیئے گا۔ پھر جنت کے دروازے پر اسے ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو سابقہ دونوں درختوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا، یہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اس (درخت) کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے سائے سے سایہ حاصل کر سکوں اور اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پیوں، پھر میں اس کے علاوہ تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا، وہ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور چیز نہیں مانگے گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! بالکل ٹھیک ہے، بس یہ پورا فرما دے، میں اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا، اس کا رب اسے معذور سمجھے گا، پھر وہ ایسی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر وہ صبر نہیں کر سکے گا، وہ اس کے قریب کر دے گا، جب وہ اسے اس کے قریب کر دے گا تو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا، رب جی! مجھے اس میں داخل فرما دے، وہ فرمائے گا: ابن آدم! کون سی چیز (چاہنے کے بعد) تو مجھ سے سوال کرنا ترک کرے گا؟ کیا تو راضی ہو جائے گا کہ میں دنیا کے برابر اور اس کی مثل مزید تجھے عطا کر دوں؟ وہ عرض کرے گا: رب جی! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہو جبکہ آپ رب العالمین ہو؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس دیے، اور فرمایا: کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں کس وجہ سے ہنس رہا ہوں؟ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اسی طرح رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ہنسے تھے، اس پر صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا تھا، اللہ کے رسول! آپ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے جب اس نے کہا تھا، کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے جبکہ تو رب العالمین ہے؟ وہ فرمائے گا: میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا بلکہ میں جو چاہوں اس کے کرنے پر قادر ہوں۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5582]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (310/ 187)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. جتنی آرزوکی تھی اس سے بھی زیادہ دیا جائے گا
حدیث نمبر: 5583
وَفِي رِوَايَة لَهُ عَن أبي سعيدٍ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ؟ إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ وَزَادَ فِيهِ: وَيَذْكُرُهُ اللَّهُ: سَلْ كَذَا وَكَذَا حَتَّى إِذَا انْقَطَعَتْ بِهِ الْأَمَانِيُّ قَالَ اللَّهُ: هُوَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ قَالَ: ثُمَّ يَدْخُلُ بَيْتَهُ فَتَدْخُلُ عَلَيْهِ زَوْجَتَاهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَيَقُولَانِ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَاكَ لَنَا وَأَحْيَانَا لَكَ. قَالَ: فَيَقُولُ: مَا أَعْطَى أَحَدٌ مثلَ مَا أَعْطَيْت
اور صحیح مسلم ہی کی ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اسی طرح ہے، البتہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا: وہ فرمائے گا: ابن آدم! کون سی چیز تجھے مجھ سے (سوال کرنے سے) باز رکھے گی؟ آخر حدیث تک، اور اس میں یہ اضافہ نقل کیا ہے: اللہ اسے یاد کرائے گا، فلاں چیز مانگو، فلاں چیز مانگو، حتی کہ جب اس کی خواہشات ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: وہ (جو تو نے مانگا) تیرے لیے ہے اور اس سے دس گنا مزید تیرے لیے ہے۔ فرمایا: پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہو گا تو حورعین سے اس کی دو بیویاں اس کے پاس آئیں گی، تو وہ کہیں گی: ہر قسم کی حمد و شکر اللہ کے لیے ہے جس نے تجھے ہماری خاطر اور ہمیں تیری خاطر پیدا فرمایا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (بندہ) کہے گا: جو مجھے عطا کیا گیا ہے ویسا کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5583]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (311/ 188)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. جن کو آگ جھلسا دے گی ان کو بھی جنت میں بھیج دیا جائے گا
حدیث نمبر: 5584
وَعَن أنس أَن النَّبِي الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيُصِيبَنَّ أَقْوَامًا سَفْعٌ مِنَ النَّارِ بِذُنُوبٍ أَصَابُوهَا عُقُوبَةً ثُمَّ يُدْخِلُهُمُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِهِ وَرَحْمَتِهِ فَيُقَالُ لَهُمُ: الجهنميون. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ لوگ ان گناہوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیے ہوں گے بطورِ سزا آگ انہیں جھلس دے گی، پھر اللہ اپنے فضل و رحمت سے انہیں جنت میں داخل فرمائے گا، انہیں جہنمی کہا جائے گا۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5584]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (6559)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. کئی لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر جھنم سے نکال کرجنت میں بھیج دیا جائے گا
حدیث نمبر: 5585
وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَةِ مُحَمَّدٍ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَيُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّينَ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَفِي رِوَايَةٍ: «يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَتِي يُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّينَ»
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کی شفاعت کے ذریعے کچھ لوگوں کو جہنم کی آگ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: میری امت کے کچھ لوگ میری شفاعت کے ذریعے جہنم کی آگ سے نکالے جائیں گے، ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا۔ رواہ البخاری و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5585]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (6566) و الترمذي (2600)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. سب سے کم درجے والا جنتی
حدیث نمبر: 5586
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا. فَيَقُولُ اللَّهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا. فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ مِنِّي-أَوْ تَضْحَكُ مِنِّي-وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟ وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ وَكَانَ يُقَالُ: ذَلِكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جہنمیوں میں سے سب سے آخر پر اس (جہنم) سے کون نکلے گا اور سب سے آخر پر جنت میں کون داخل ہو گا، ایک آدمی سرین کے بل گھسٹ کر جہنم سے نکلے گا تو اللہ فرمائے گا: جا، جنت میں داخل ہو جا، وہ وہاں آئے گا تو اسے ایسے خیال آئے گا کہ وہ تو بھر چکی ہے، وہ عرض کرے گا: رب جی! میں نے تو اسے بھرا ہوا پایا ہے، اللہ فرمائے گا، جا، جنت میں داخل ہو جا، تیرے لیے دنیا اور اس کی مثل دس گنا ہے، وہ عرض کرے گا: کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے، حالانکہ تو بادشاہ ہے۔ (راوی بیان کرتے ہیں) میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں، کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہو گا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5586]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6571) و مسلم (308/ 186)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. سب سے آخر میں جنت میں جانے والے اور جھنم سے نکلنے والے کا ذکر
حدیث نمبر: 5587
وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا رَجُلٌ يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ: اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ وَارْفَعُوا عَنْهُ كِبَارهَا فتعرض عَلَيْهِ صغَار ذنُوبه وفيقال: عملت يَوْم كَذَا وَكَذَا وَكَذَا وَكَذَا وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ. لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنْكِرَ وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوبِهِ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْهِ. فَيُقَالُ لَهُ فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً. فَيَقُولُ: رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَا أَرَاهَا هَهُنَا وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اچھی طرح جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا اور جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، ایک آدمی کو روزِ قیامت پیش کیا جائے گا تو کہا جائے گا، اس پر اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور اس کے کبیرہ گناہ چھپا رکھو، اس کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کیے جائیں گے تو کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ، یہ، یہ اور یہ کیا اور فلاں دن تو نے یہ، یہ، یہ اور یہ کیا، وہ عرض کرے گا: جی ہاں! وہ انکار نہیں کر سکے گا، اور وہ اپنے کبیرہ گناہوں سے ڈر رہا ہو گا کہ وہ اس پر پیش کیے جائیں گے، اتنے میں اسے کہا جائے گا: ہر برائی کے بدلے تجھے نیکی عطا کی جاتی ہے، تو وہ عرض کرے گا: رب جی! میں نے تو کچھ ایسے (کبیرہ) گناہ کیے تھے جنہیں میں یہاں دیکھ نہیں رہا۔ اور میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5587]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (314/ 190)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. وہ چار آدمی جن کو دوزخ سے نکالا جائے گا
حدیث نمبر: 5588
وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ أَرْبَعَةٌ فَيُعْرَضُونَ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ يُؤْمَرُ بِهِمْ إِلَى النَّارِ فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ؟ لَقَدْ كنتُ أَرْجُو إِذا أَخْرَجْتَنِي مِنْهَا أَنْ لَا تُعِيدَنِي فِيهَا قَالَ: «فينجيه الله مِنْهَا» . رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (سب سے آخر پر) جہنم سے چار آدمیوں کو نکال کر اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا، وہ پھر انہیں جہنم میں لے جانے کا حکم فرمائے گا، ان میں سے ایک پھر مڑ مڑ کر دیکھے گا اور عرض کرے گا: رب جی! میں تو امید کرتا تھا کہ جب تو نے مجھے وہاں سے نکال لیا تو پھر تو مجھے اس میں نہیں لوٹائے گا۔ فرمایا: اللہ اس کو اس (جہنم) سے نجات دے دے گا۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5588]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (321 / 192)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. انسان جنت میں اپنے مکان کو پہچان لے گا
حدیث نمبر: 5589
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُقْتَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ لَهُ فِي الدُّنْيَا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن جہنم سے خلاصی حاصل کر لیں گے تو انہیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے دنیا کے باہمی مظالم (حق تلفیوں) کا ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا حتی کہ جب وہ صاف ستھرے کر دیے جائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کی جان ہے! ان میں سے ہر ایک جنت میں اپنے گھر کو، دنیا میں اپنے گھر کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے جانتا ہو گا۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5589]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (2440)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. دوزخ میں جانے والوں کو جنت میں ان کا ٹھکانہ دکھایا جانا
حدیث نمبر: 5590
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ أَحَدٌ الْجَنَّةَ إِلَّا أُرِيَ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ لَوْ أَسَاءَ لِيَزْدَادَ شُكْرًا وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ إِلَّا أُرِيَ مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ لَوْ أَحْسَنَ ليَكُون عَلَيْهِ حسرة» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہر شخص کو اس کا جہنم کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا کہ اگر اس نے نافرمانی کی ہوتی (تو اس کا ٹھکانا وہ ہوتا) تا کہ وہ مزید شکر کرے، اور (اسی طرح) جہنم میں داخل ہونے والے ہر شخص کا اس کو جنت کا ٹھکانا بھی دکھایا جائے گا، اگر اس نے اچھے عمل کیے ہوتے (تو اس کا ٹھکانا یہ ہوتا) تا کہ وہ اس کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہو۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5590]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (6569)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح


Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next