الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
--. آدم علیہ السلام کا وجود بنایا گیا تو فرشتوں نے کہا:۔۔۔
حدیث نمبر: 5732
وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَذُرِّيَّتَهُ قَالَتِ: الْمَلَائِكَةُ: يَا رَبِّ خَلَقْتَهُمْ يَأْكُلُونَ وَيَشْرَبُونَ وَيَنْكِحُونَ وَيَرْكَبُونَ فَاجْعَلْ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةَ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لَا أَجْعَلُ مَنْ خَلَقْتُهُ بيديَّ ونفخت فِيهِ مِنْ رُوحِي كَمَنْ قُلْتُ لَهُ: كُنْ فَكَانَ «. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي» شُعَبِ الْإِيمَانِ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ اور اس کی اولاد کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا، رب جی! تو نے انہیں پیدا فرمایا ہے، وہ کھاتے پیتے، شادیاں کرتے اور سواری کرتے ہیں، اور تو ان کے لیے دنیا مقرر کر دے اور ہمارے لیے آخرت مقرر فرما دے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اس (مخلوق) کو، جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی، اسے میں اس مخلوق کے برابر نہیں کروں گا جسے میں نے کہا بن جا اور وہ بن گئی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5732]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (149، نسخة محققة: 147)
٭ ھشام بن عمار اختلط و الأنصاري لم أعرفه وجاء تصريحه في رواية جنيد بن حکيم و لا يدري من ھو؟ و عبد ربه بن صالح القرشي و ثقه ابن حبان وحده فھو مجھول الحال .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. کامل درجہ کے مؤمن کا ذکر
حدیث نمبر: 5733
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُؤْمِنُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ بَعْضِ مَلَائِكَتِهِ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن اللہ کے ہاں بعض فرشتوں سے بھی زیادہ معزز ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5733]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (3947)
٭ فيه أبو المھزم: متروک .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا

--. چھ دن میں دنیا کو پیدا کیا
حدیث نمبر: 5734
وَعَنْهُ قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ فَقَالَ: «خلق الله الْبَريَّة يَوْمَ السَّبْتِ وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ وَخلق الشّجر يَوْم الِاثْنَيْنِ وَخلق الْمَكْرُوه يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ وَخَلَقَ آدَمَ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ وَآخِرِ سَاعَةٍ مِنَ النَّهَارِ فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلى اللَّيْل» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اللہ نے مٹی (زمین) کو ہفتے کے دن پیدا فرمایا، اتوار کے روز اس میں پہاڑ پیدا فرمائے، پیر کے دن درخت پیدا فرمائے، مکروہ چیزیں منگل کے دن پیدا فرمائیں، بدھ کے روز نور پیدا فرمایا، جمعرات کے روز اس میں چوپائے پھیلائے اور آدم ؑ کو جمعہ کے دن عصر کے بعد مخلوق میں سب سے آخر پر پیدا فرمایا، اور دن کی آخری گھڑی عصر اور شام کے درمیان ہے۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5734]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (27/ 2789)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. کائنات کا ذکر
حدیث نمبر: 5735
وَعَنْهُ قَالَ: بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟» . قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «هَذِهِ الْعَنَانُ هَذِهِ رَوَايَا الْأَرْضِ يَسُوقُهَا اللَّهُ إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْكُرُونَهُ وَلَا يَدعُونَهُ» . ثمَّ قَالَ: «هَل تَدْرُونَ من فَوْقَكُمْ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ سَقْفٌ مَحْفُوظٌ وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ» . ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا خَمْسُمِائَةِ عَامٍ» ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟» . قَالُوا: اللَّهُ ورسولُه أعلمُ. قَالَ: «سماءانِ بُعْدُ مَا بَيْنَهُمَا خَمْسُمِائَةِ سَنَةٍ» . ثُمَّ قَالَ كَذَلِكَ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ «مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءَيْنِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» . ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «إِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّماءين» . ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا تَحْتَ ذَلِكَ؟» . قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «إِنَّ تَحْتَهَا أَرْضًا أُخْرَى بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ سَنَةٍ» . حَتَّى عدَّ سَبْعَ أَرضين بَين كلَّ أَرضين مسيرَة خَمْسمِائَة سنة قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ بِحَبْلٍ إِلَى الْأَرْضِ السُّفْلَى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ» ثُمَّ قَرَأَ (هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شيءٍ عليم) رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: قِرَاءَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآيَةَ تَدُلُّ على أَنه أَرَادَ الهبط عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ وَعِلْمُ اللَّهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَهُوَ عَلَى الْعَرْش كَمَا وصف نَفسه فِي كِتَابه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس اثنا میں کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے صحابہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بادل آیا تو اللہ کے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ عنان ہے، یہ زمین کو سیراب کرنے والا ہے، اللہ اس کو اس قوم کی طرف ہانک کر لے جاتا ہے جو نہ تو اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس سے دعا کرتے ہیں۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رقیع (آسمان کا نام) ایک محفوظ چھت اور تھمی ہوئی موج ہے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: آسمان اور ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ راوی بیان کرتا ہے کہ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح فرمایا حتی کہ آپ نے سات آسمان گنے۔ اور ہر دو آسمان کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے اوپر عرش ہے، اس کے اور آسمان کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی دو آسمانوں کے درمیان ہے۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے نیچے کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: وہ زمین ہے۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: اس کے نیچے ایک دوسری زمین ہے، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ حتی کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سات زمینیں شمار کیں۔ اور ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) کی جان ہے! اگر تم نچلی زمین کی طرف رسی لٹکاؤ تو وہ اللہ کے علم میں ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: وہی اول، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قراءتِ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارادہ فرمایا کہ وہ اللہ کے علم، اس کی قدرت اور اس کی بادشاہت میں گرتی ہے، اور اللہ کا علم و قدرت اور اس کی بادشاہت ہر جگہ پر ہے جبکہ وہ عرش پر (مستوی) ہے، جیسا کہ اس نے اپنے متعلق اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5735]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 206. 207 ح 1770) و الترمذي (3298 وقال: غريب)
٭ الحسن البصري مدلس و عنعن و لبعض الحديث شواھد .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. آدم علیہ السلام کی قد و قامت
حدیث نمبر: 5736
وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَانَ طُولُ آدَمَ سِتِّينَ ذِرَاعًا فِي سبع أَذْرع عرضا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم ؑ کا طول ساٹھ ہاتھ اور عرض سات ہاتھ تھا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5736]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (2/ 535 ح 10926)
٭ فيه علي بن زيد بن جدعان: ضعيف مشھور .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. انبیاء اور رسولوں کی تعداد
حدیث نمبر: 5737
وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ: «آدَمُ» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَنَبِيٌّ كَانَ؟ قَالَ: «نَعَمْ نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كم المُرْسَلُونَ؟ قَالَ: «ثَلَاثمِائَة وبضع عشر جماً غفيراً» وَفِي رِوَايَة عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ وَفَاءُ عِدَّةِ الْأَنْبِيَاءِ؟ قَالَ: «مِائَةُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ أَلْفًا الرُّسُلُ مِنْ ذَلِكَ ثَلَاثُمِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ جَمًّا غَفِيرًا»
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم ؑ۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، ایسے نبی تھے جن پر صحیفہ نازل کیا گیا تھا۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! رسول کتنے تھے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین سو اور دس سے کچھ اوپر کا جم غفیر تھا۔ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے، ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! انبیا ؑ کی کل تعداد کتنی ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار، ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ایک جم غفیر ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5737]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 178 ح 21879)
٭ فيه عبيد بن خشخاش لين وأبو عمر الدمشقي: ضعيف .
رواية أبي أمامة: سنده ضعيف جدًا، رواها أحمد (5/ 265، 266 ح 22644) فيه علي بن يزيد الألھاني ضعيف جدًا و معان بن رفاعة ضعيف .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تختیوں کو پھینکنا
حدیث نمبر: 5738
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَخْبَرَ مُوسَى بِمَا صَنَعَ قَوْمُهُ فِي الْعِجْلِ فَلَمْ يُلْقِ الْأَلْوَاحَ فَلَمَّا عَايَنَ مَا صَنَعُوا أَلْقَى الْأَلْوَاحَ فَانْكَسَرَتْ. رَوَى الْأَحَادِيث الثَّلَاثَة أَحْمد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبر، مشاہدے کی طرح نہیں ہوتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کو ان کی قوم کے بچھڑے کو معبود بنانے کے متعلق بتایا تو انہوں نے الواح (تختیاں) نہیں پھینکیں، جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو انہوں نے کیا تھا، تو انہوں نے تختیاں پھینک دیں اور وہ ٹوٹ گئیں۔ تینوں (بلکہ چاروں) احادیث کو امام احمد ؒ نے نقل کیا ہے۔ صحیح، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5738]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (1/ 271 ح 2447 و ا/ 215 ح 1842) [وصححه ابن حبان (الموارد: 2087. 2088) والحاکم (2/ 321 ح 3250، 2/ 380 ح 3435) علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي و سنده صحيح]
٭ ھشيم بن بشير عنعن و لکن تابعه أبو عوانة و به صح الحديث .»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح


Previous    18    19    20    21    22