الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
--. تمام انبیاء سوتیلے بھائی ہیں
حدیث نمبر: 5722
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ الْأَنْبِيَاءُ أُخْوَةٌ مِنْ عَلَّاتٍ وَأُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ وَلَيْسَ بَيْنَنَا نَبِي» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں عیسیٰ بن مریم ؑ سے دنیا و آخرت میں اور لوگوں کی نسبت زیادہ قرابت دار ہوں، انبیا ؑ علاتی (ایک باپ کی اولاد) بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں، جبکہ ان کا دین ایک ہے، اور ہمارے (میرے اور عیسیٰ ؑ) کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5722]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3442. 3443) و مسلم (145/ 2365)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. شیطان کا دو انگلیوں سے کچوکے لگانا
حدیث نمبر: 5723
وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ بَنِي آدَمَ يَطْعَنُ الشَّيْطَانُ فِي جَنْبَيْهِ بِإِصْبَعَيْهِ حِينَ يُوَلَدُ غَيْرَ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ ذَهَبَ يَطْعَنُ فَطَعَنَ فِي الْحِجَابِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم ؑ کے علاوہ، شیطان ہر نومولود کو اس کی پیدائش کے وقت اپنی دو انگلیوں سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے۔ وہ انہیں بھی کچوکے لگانے گیا تھا، لیکن اس نے حجاب میں کچوکے لگا دیے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5723]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3286) و مسلم (147/ 2366)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. خواتین میں سے چند ہی درجہ کمال پر فائز ہوئیں
حدیث نمبر: 5724
وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النساءِ إِلا مريمُ بنتُ عِمْرَانَ وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَفَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَذَكَرَ حَدِيثَ أَنَسٍ: «يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ» . وَحَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ» وَحَدِيثُ ابْن عمر: الْكَرِيم بن الْكَرِيمِ: «. فِي» بَابِ الْمُفَاخَرَةِ وَالْعَصَبِيَّةِ
ابوموسی رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوں میں سے تو بہت سے کامل ہوئے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کمال کو پہنچیں، اور عائشہ رضی اللہ عنہ کو تمام عورتوں پر ایسے ہی برتری حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضیلت حاصل ہے۔ متفق علیہ۔ اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((یا خیر البریۃ))، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((أی الناس اکرم)) اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((الکریم ابن الکریم)) باب المفاخرۃ و العصیۃ میں ذکر کی گئی ہے۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5724]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3411) و مسلم (2431/70)
حديث ’’خير البرية‘‘ تقدم (4896) و ’’أي الناس، أکرم‘‘ تقدم (4893) و ’’الکريم بن الکريم‘‘ تقدم (4894)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. پروردگار مخلوقات کی تخلیق سے پہلے کہاں تھا
حدیث نمبر: 5725
وَالْبَعْض يُحسنهُ) عَن أبي رزين قَالَ: قلت: يَا رَسُول الله أَيْن رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟ قَالَ: «كَانَ فِي عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ وَخَلَقَ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: الْعَمَاءُ: أَيْ لَيْسَ مَعَه شَيْء
ابورزین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! جب رب تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس سے پہلے وہ کہاں تھا؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابر میں، اس کے نیچے ہوا تھی اور اس کے اوپر ہوا تھی، اور اس نے اپنا عرش پانی پر تخلیق فرمایا۔ ترمذی، اور فرمایا: یزید بن ہارون نے کہا: عماء سے مراد ہے اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5725]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (3109)
٭ و کيع بن عدس: حسن الحديث و ثقه الجمھور .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے
حدیث نمبر: 5726
وَعَن العبَّاس بن عبد الْمطلب زعم أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِيهِمْ فَمَرَّتْ سَحَابَةٌ فَنَظَرُوا إِلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ؟» . قَالُوا: السَّحَابَ. قَالَ: «وَالْمُزْنَ؟» قَالُوا: وَالْمُزْنَ. قَالَ: «وَالْعَنَانَ؟» قَالُوا: وَالْعَنَانَ. قَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا بعد مابين السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ؟» ‏‏‏‏ قَالُوا: لَا نَدْرِي. قَالَ: «إِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ وَإِمَّا اثْنَتَانِ أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً وَالسَّمَاءُ الَّتِي فَوْقَهَا كَذَلِكَ» حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ. ثُمَّ «فَوْقَ السَّمَاء السَّابِعَة بَحر بَين أَعْلَاهُ وأسفله مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَة أَو عَال بَيْنَ أَظْلَافِهِنَّ وَوُرُكِهِنَّ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ عَلَى ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلَاهُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ ثُمَّ اللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد
عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نقل کیا کہ وہ بطحا میں ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان میں تشریف فرما تھے، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا گزرا تو انہوں نے اس کی طرف دیکھا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے کیا نام دیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: السحاب، فرمایا: المزن، انہوں نے عرض کیا: المزن آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: العنان انہوں نے عرض کیا: العنان آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی مسافت ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہم نہیں جانتے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان یا تو اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت ہے، اور آسمان جو اس کے اوپر ہے اسی طرح ہے۔ حتی کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ساتوں آسمان گنے۔ پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اوپر والے اور نچلے حصے کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے، جیسے آسمان سے دوسرے آسمان تک، پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں جو پہاڑی بکروں کی شکل کے ہیں، ان کے کھروں اور سرین کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان سے آسمان تک ہے، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے، اس کے نچلے اور اوپر والے حصے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔ پھر اس کے اوپر اللہ ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5726]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3320 وقال: حسن غريب) و أبو داود (4723) [و ابن ماجه (193) ]
٭ سماک اختلط و لم يحدّث به قبل اختلاطه و عبد الله بن عميرة لايعرف له سماع من الأحنف کما قال البخاري رحمه الله.»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. وسیلہ بنانے سے منع کیا
حدیث نمبر: 5727
وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: جَهِدَتِ الْأَنْفُسُ وَجَاعَ الْعِيَالُ وَنُهِكَتِ الْأَمْوَالُ وَهَلَكَتِ الْأَنْعَام فَاسْتَسْقِ اللَّهَ لَنَا فَإِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِكَ عَلَى الله نستشفع بِاللَّهِ عَلَيْكَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ» . فَمَا زَالَ يسبّح حَتَّى عُرف ذَلِك فِي وُجُوه أَصْحَابه ثُمَّ قَالَ: «وَيْحَكَ إِنَّهُ لَا يُسْتَشْفَعُ بِاللَّهِ عَلَى أَحَدٍ شَأْنُ اللَّهِ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَيْحَكَ أَتَدْرِي مَا اللَّهُ؟ إِنَّ عَرْشَهُ عَلَى سَمَاوَاتِهِ لَهَكَذَا» وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ مَثْلَ الْقُبَّةِ عَلَيْهِ «وإِنه ليئط أطيط الرحل بالراكب» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک اعرابی رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا جانیں مشقت میں پڑ گئیں، بال بچے بھوک کا شکار ہو گئے، اموال ختم ہو گئے اور جانور ہلاک ہو گئے، آپ اللہ سے ہمارے لیے بارش کی دعا فرمائیں، ہم آپ کے ذریعے اللہ سے سفارش کرتے ہیں اور اللہ کے ذریعے آپ سے سفارش کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! سبحان اللہ! آپ مسلسل تسبیح بیان کرتے رہے حتی کہ یہ چیز آپ کے صحابہ کے چہروں سے معلوم ہونے لگی، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے، کسی پر اللہ کو سفارشی نہیں بنایا جاتا، اللہ کی شان اس سے عظیم تر ہے، تجھ پر افسوس ہے، کیا تم جانتے ہو، اللہ (کی عظمت و کبریائی) کیا ہے؟ بے شک اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے۔ اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ فرمایا جیسے اس پر قبہ ہو۔ وہ اس وجہ سے اس طرح آواز نکالتا ہے جس طرح سوار کی وجہ سے پالان آواز نکالتا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5727]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4726)
٭ محمد بن إسحاق مدلس و عنعن و جبير بن محمد: مستور، لم يوثقه غير ابن حبان .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کا حال
حدیث نمبر: 5728
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ أَنَّ مَا بَيْنَ شحمة أُذُنَيْهِ إِلَى عَاتِقَيْهِ مَسِيرَةُ سَبْعِمِائَةِ عَامٍ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اجازت دی گئی کہ میں اللہ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا ذکر کروں جو حاملین عرش میں سے ہے، اس کے کانوں کی لو اور اس کے کندھوں کے درمیان سات سو سال کی مسافت ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5728]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4727)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. کیا جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے
حدیث نمبر: 5729
وَعَن زُرَارَة بن أوفى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِجِبْرِيلَ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ فَانْتَفَضَ جِبْرِيلُ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ سَبْعِينَ حِجَابًا مِنْ نُورٍ لَوْ دَنَوْتُ مِنْ بَعْضِهَا لاحترقت «. هَكَذَا فِي» المصابيح
زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ سے پوچھا: کیا تم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ (اس سوال سے) جبریل ؑ لرز گئے اور فرمایا: محمد! میرے اور اس کے درمیان نور کے ستر پردے ہیں، اگر میں ان میں سے کسی کے قریب چلا جاؤں تو میں جل جاؤں۔ المصابیح میں اس طرح ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی مصابیح السنہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5729]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، و ذکره البغوي في مصابيح السنة (4/ 30) [و أبو الشيخ في العظمة (677/2. 678) و الدارمي (في الرد علي المريسي ص 172) ]
٭ السند صحيح إلي زرارة رحمه الله و لکنه: مرسل .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. کیا جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، بروایت ابونعیم
حدیث نمبر: 5730
وَرَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ فِي «الْحِلْيَةِ» عَنْ أَنَسٍ إِلَّا أَنه لم يذكر: «فانتفض جِبْرِيل»
ابونعیم نے اسے حلیہ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، البتہ انہوں نے ذکر نہیں کیا: جبریل ؑ لرز گئے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5730]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو نعيم في حلية الأولياء (5/ 55)
٭ فيه أبو مسلم قائد الأعمش: ضعيف و الأعمش مدلس و عنعن إن صح السند إليه .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. اسرافیل علیہ السلام کے بارے میں
حدیث نمبر: 5731
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ إِسْرَافِيلَ مُنْذُ يَوْمَ خَلْقَهُ صَافًّا قَدَمَيْهِ لَا يَرْفَعُ بَصَرَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَبْعُونَ نورا مَا مِنْهَا من نورٍ يدنو مِنْهُ إِلاّ احْتَرَقَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَصَححهُ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے اسرافیل ؑ کو پیدا فرمایا، اس نے جس روز سے اسے پیدا فرمایا وہ اس وقت سے اپنے قدموں پر کھڑا ہے اور وہ اپنی نظر تک نہیں اٹھاتا، اس کے اور اس کے رب تبارک و تعالیٰ کے درمیان ستر نور ہیں، جو اس نور کے قریب جاتا ہے تو وہ جل جاتا ہے۔ ترمذی، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ضعیف، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5731]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «ضعيف، رواه الترمذي (لم أجده) [و رواه الطبراني في الکبير (11/ 379. 380 ح 12061) والبيھقي في شعب الإيمان (157، نسخة محققة: 155) و في السند محمد بن عبد الرحمٰن بن أبي ليلي ضعيف مشھور ضعفه جمھور المحدثين و في السند علة أخري] »


قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف


Previous    17    18    19    20    21    22    Next