ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ”تو کمان یا اس سے بھی کم فرق رہ گیا۔ “ اور ”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا، دل نے اس میں دھوکہ نہیں کھایا“ اور ”اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “ کے بارے میں فرمایا: ان تمام صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل ؑ کو دیکھا ہے، ان کے چھ سو پر تھے۔ متفق علیہ۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے: ”آپ نے جو دیکھا، دل نے اس میں دھوکہ نہیں کھایا۔ “ کے بارے میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل ؑ کو سبز جوڑے میں دیکھا، اس نے زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو پُر کر رکھا تھا، اور ترمذی اور صحیح بخاری کی، اللہ تعالیٰ کے فرمان: ”آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “ روایت میں ہے، فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سبز لباس والے کو دیکھا اس نے افق بھر دیا تھا۔ و الترمذی و قال: حسن صحیح۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5662]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4856 و الرواية الأخيرة: 4858) و مسلم (282، 281 / 174) و الترمذي (3283 وقال: حسن صحيح)»
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے
اور مالک بن انس ؒ سے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ”وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے۔ “ کے بارے میں پوچھا گیا، نیز انہیں بتایا گیا کہ کچھ لوگ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ رب تعالیٰ کے ثواب کو دیکھنے والے ہوں گے، امام مالک ؒ نے فرمایا: انہوں نے جھوٹ کہا ہے، (اگر ایسے ہے) تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ”ہرگز نہیں، بے شک وہ اس روز اپنے رب کے دیدار سے روک دیے جائیں گے۔ “ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ امام مالک ؒ نے فرمایا: لوگ روز قیامت اپنی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کریں گے اور فرمایا: اگر مومن قیامت کے دن اپنے رب کا دیدار نہیں کریں گے تو پھر اللہ کافروں کو دیدار سے محرومی کی عار نہ دلاتا، فرمایا: ”ہرگز نہیں، بے شک وہ (کافر لوگ) اس روز اپنے رب کے دیدار سے روک دیے جائیں گے۔ “ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5663]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (15/ 329. 330 قبل ح 4393 بدون سند)»
جابر رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس اثنا میں کہ جنت والے اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ اچانک ان کے لیے ایک نور چمکے گا، وہ اپنے سر اٹھائیں گے تو اچانک ان کے اوپر سے رب تعالیٰ نے ان پر تجلی فرمائی ہو گی، وہ فرمائے گا: جنت والو! السلام علیکم!“ فرمایا: ”یہ اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان ہے: ”مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔ “ فرمایا: ”وہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اس کی طرف دیکھیں گے، جب تک وہ اس کی طرف دیکھتے رہیں گے وہ کسی اور نعمت کی طرف توجہ نہیں کریں گے حتی کہ وہ ان سے حجاب کر لے گا اور اس کا نور باقی رہ جائے گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5664]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (184) ٭ الفضل الرقاشي: منکر الحديث و رمي بالقدر .»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری (یہ دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ “ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! اگر (یہ دنیا کی آگ ہی) ہوتی تو وہی کافی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس (جہنم کی آگ) کو ان (آگ کی اقسام) پر انہتر درجے فضیلت و برتری دی گئی ہے، وہ سب اس (دنیا کی آگ) کی حرارت و تپش کی طرح ہے۔ “ اور الفاظ حدیث صحیح بخاری کے ہیں۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ”تمہاری وہ آگ جو انسان جلاتا ہے۔ “ اور صحیح مسلم کی روایت میں: ((علیھن)) اور ((کلھن)) کے بجائے ((علیھا)) اور ((کلھا)) کے الفاظ ہیں۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5665]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3265) و مسلم (30/ 2843)»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کو لایا جائے گا، اس روز اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5666]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (29/ 2842)»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم والوں میں سے جس شخص کو سب سے ہلکا عذاب ہو گا، وہ شخص وہ ہو گا جس کے جوتے اور تسمے آگ کے ہوں گے، جن کی وجہ سے اس کا دماغ اس طرح کھولتا ہو گا جس طرح ہنڈیا کھولتی ہے، “ وہ یہ خیال کرے گا کہ کسی شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہو گا۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5667]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6561. 6562) و مسلم (364/ 213)»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم والوں میں سے سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہو گا، اس نے آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے، ان سے اس کا دماغ کھولے گا۔ “ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5668]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (لم أجده) [و مسلم (362/ 212) ] »
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت جہنم والوں میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جسے دنیا میں سب سے زیادہ نعمتیں میسر تھیں، اسے آگ میں ایک غوطہ دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے انسان! کیا تم نے کبھی کوئی خیر و نعمت دیکھی تھی؟ کیا کسی نعمت کا تیرے پاس سے کبھی گزر ہوا تھا؟ وہ عرض کرے گا: رب جی! اللہ کی قسم! نہیں، (پھر) اہل جنت میں سے ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے دنیا میں سب سے زیادہ بدحالی دیکھی ہو، اسے جنت میں ایک بار گھما کر اس سے پوچھا جائے گا: اے انسان! کیا تو نے کبھی کوئی بدحالی دیکھی تھی؟ یا کبھی کوئی شدت و تنگی تیرے پاس سے گزری تھی؟ وہ عرض کرے گا: رب جی! اللہ کی قسم! نہیں، نہ تو کبھی بدحالی میرے پاس سے گزری اور نہ میں نے کبھی کوئی شدت و تنگی دیکھی۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5669]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (55/ 2807)»
انس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت اللہ، جہنم والوں میں سے سب سے ہلکے عذاب میں گرفتار شخص سے فرمائے گا: اگر زمین کی تمام چیزیں تیری ملکیت ہوں تو کیا تو انہیں اس (عذاب کے) بدلے میں بطورِ فدیہ دے دے گا؟ وہ عرض کرے گا: جی ہاں، وہ فرمائے گا: میں نے تجھ سے، جبکہ تو آدم ؑ کی پشت میں تھا، اس سے بھی معمولی چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ تو میرے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے گا، لیکن تو نے انکار کیا، اور میرے ساتھ شرک کیا۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5670]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6557) و مسلم (51/ 2805)»
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ ایسے لوگ ہوں گے جنہیں آگ ان کے ٹخنوں تک پکڑے گی، ان میں سے کسی کے گھٹنوں تک پہنچی ہو گی، ان میں سے کسی کے ازار بند تک پہنچی ہو گی اور ان میں سے کسی کی گردن کو دبوچے ہوئے ہو گی۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5671]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (33/ 2845)»