الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
--. جنت کی عورتیں
حدیث نمبر: 5652
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ فِي الْجَنَّةِ لَيَتَّكِئُ فِي الْجَنَّةِ سَبْعِينَ مَسْنَدًا قَبْلَ أَنْ يَتَحَوَّلَ ثُمَّ تَأْتِيهِ امْرَأَةٌ فَتَضْرِبُ عَلَى مَنْكِبِهِ فَيَنْظُرُ وَجْهَهُ فِي خَدِّهَا أَصْفَى مِنَ الْمِرْآةِ وَإِنَّ أَدْنَى لُؤْلُؤَةٍ عَلَيْهَا تُضِيءُ مَا بينَ المشرقِ والمغربِ فتسلِّمُ عَلَيْهِ فيردُّ السلامَ وَيَسْأَلُهَا: مَنْ أَنْتِ؟ فَتَقُولُ: أَنَا مِنَ الْمَزِيدِ وَإِنَّهُ لَيَكُونُ عَلَيْهَا سَبْعُونَ ثَوْبًا فَيَنْفُذُهَا بَصَرُهُ حَتَّى يَرَى مُخَّ سَاقِهَا مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ وإِنَّ عَلَيْهَا من التيجان أَن أدنىلؤلؤة مِنْهَا لَتُضِيءُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ. رَوَاهُ أَحْمد
ابوسعید رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی جنت میں، (اپنی خاص) جنت میں کروٹ بدلنے سے پہلے ستر تکیوں پر ٹیک لگائے گا، پھر ایک عورت اس کے پاس آئے گی، اور اس کے کندھے کو تھپتھپائے گی، وہ اس کے رخسار میں اپنا چہرہ دیکھے گا، وہ (رخسار) آئینے سے زیادہ صاف ہو گا، اور اس (عورت) پر ادنی موتی مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے کو روشن کر دے، وہ اس کو سلام کرے گی تو وہ اسے سلام کا جواب دے گا، اور وہ اس سے پوچھے گا: تو کون ہے؟ وہ کہے گی: میں مزید کے ضمن سے ہوں، اس پر ستر لباس ہوں گے، اس کی نظر ان (ستر لباسوں) سے گزر جائے گی حتی کہ ان کے پیچھے اس کی پنڈلی کا گودا دیکھ لے گا، اور اس پر ایک تاج ہو گا اور اس کے جواہرات میں سے ادنی ہیرا مشرق و مغرب کو روشن کر دے۔ حسن، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5652]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أحمد (3/ 75 ح 11738) و ابن حبان في صحيحه (الإحسان: 7354 / 7397 وسنده حسن)»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

--. جنتی کی ہر خواہش پوری کر دی جائے گی
حدیث نمبر: 5653
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَحَدَّثُ-وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ-: إِنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ فِي الزَّرْعِ. فَقَالَ لَهُ: أَلَسْتَ فِيمَا شِئْتَ؟ قَالَ: بَلَى وَلَكِنْ أُحِبُّ أَنْ أَزْرَعَ فَبَذَرَ فَبَادَرَ الطَّرْفَ نَبَاتُهُ وَاسْتِوَاؤُهُ وَاسْتِحْصَادُهُ فَكَانَ أَمْثَالَ الْجِبَالِ. فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: دُونَكَ يَا ابْن آدم فَإِنَّهُ يُشْبِعُكَ شَيْءٌ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: وَاللَّهِ لَا تَجِدُهُ إِلَّا قُرَشِيًّا أَوْ أَنْصَارِيًّا فَإِنَّهُمْ أَصْحَابُ زَرْعٍ وَأَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِأَصْحَابِ زَرْعٍ فَضَحِكَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بات کر رہے تھے، اس وقت آپ کے پاس ایک اعرابی تھا کہ جنت والوں میں سے ایک آدمی نے اپنے رب سے کاشتکاری کے متعلق اجازت طلب کی تو اس نے اس سے فرمایا: کیا تجھے من پسند چیزیں میسر نہیں؟ اس نے عرض کیا، کیوں نہیں، میسر ہیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں کاشتکاری کروں، اس نے بیج گرایا تو پل بھر میں وہ اگ آیا، برابر ہو گیا اور کٹ بھی گیا، اور وہ (غلے کے ڈھیر) پہاڑوں کی طرح تھے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! اسے لے لو، کیونکہ کوئی چیز تیرا پیٹ نہیں بھر سکتی۔ اس اعرابی نے عرض کیا، اللہ کی قسم! وہ قریشی یا انصاری ہو گا کیونکہ وہ کاشتکار ہیں، اور رہے ہم، تو ہم کاشتکار نہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس دیے۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5653]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (2348)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. اہل جنت کی نیند کا ذکر
حدیث نمبر: 5654
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنَامُ أَهْلُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: «النَّوْمُ أَخُو الْمَوْتِ وَلَا يَمُوتُ أَهْلُ الجنةِ» . رواهُ البيهقيُّ فِي «شعب الْإِيمَان»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مسئلہ دریافت کیا، کیا جنت والے سوئیں گے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نیند، موت کی بہن ہے اور جنت والے مریں گے نہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5654]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (4745، نسخة محققة: 4416)
٭ سفيان الثوري مدلس و عنعن و لحديثه شواھد ضعيفة و مرسلة في الصحيحة للألباني (1087) و معناه صحيح .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. اہل جنت کو رب کا دیدار ضرور ہو گا
حدیث نمبر: 5655
عَن جَرِيرِ بْنِ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِيَانًا» . وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا» ثُمَّ قَرَأَ (وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبهَا) مُتَّفق عَلَيْهِ
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے رب کو صاف ظاہر طور پر دیکھو گے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: راوی بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا تو فرمایا: عنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اور اس کو دیکھنے میں تم کوئی تنگی محسوس نہیں کرو گے، اگر تم اس کی استطاعت رکھو کہ تم طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے کی نمازوں کی ادائیگی میں مغلوب نہ ہو جاؤ تو پھر ان کی ادائیگی ضرور کرو۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: طلوع آفتاب اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرو۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5655]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (554) و مسلم (211/ 632)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کے دیدار سے بہتر کوئی چیز نہیں
حدیث نمبر: 5656
وَعَن صُهَيْب عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: تُرِيدُونَ شَيْئًا أَزِيدُكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: «فَيُرْفَعُ الْحِجَابُ فَيَنْظُرُونَ إِلَى وَجْهِ اللَّهِ فَمَا أُعْطُوا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ» ثُمَّ تَلَا (لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَة) رَوَاهُ مُسلم
صہیب رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو میں تمہیں مزید عطا فرماؤں؟ وہ عرض کریں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں بنا دیے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرما دیا اور تو نے ہمیں جہنم کی آگ سے نہیں بچا لیا؟ فرمایا: حجاب اٹھا لیا جائے گا تو وہ اللہ کے چہرے کا دیدار کریں گے، انہیں جو کچھ عطا کیا گیا ان میں سے اپنے رب کا دیدار نہیں سب سے زیادہ محبوب ہو گا۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اچھے اعمال کیے، اچھا ثواب (جنت) ہے اور زیادہ (اللہ تعالیٰ کا دیدار) ہے۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5656]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (298، 297 / 181)»


قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (298، 297 / 181)

--. اللہ تعالیٰ کی زیارت
حدیث نمبر: 5657
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَنَعِيمِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ وَأَكْرَمَهُمْ عَلَى اللَّهِ مَنْ يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً» ثُمَّ قَرَأَ (وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى ربّها ناظرة) رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت والوں میں سے سب سے ادنی مقام والا وہ شخص ہو گا جو اپنے باغات، اپنی ازواج، اپنی نعمتوں، اپنے خادموں اور اپنے تختوں کو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا (اس کی نعمتیں ہزار سال کی مسافت پر محیط ہوں گی) اور ان میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہو گا جو صبح و شام اس کے چہرے کا دیدار کرے گا۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اس روز بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5657]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (2/ 64 ح 5317) و الترمذي (2553)
٭ فيه ثوير: ضعيف .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کے دیدار میں کوئی رکا وٹ نہیں ہو گی
حدیث نمبر: 5658
وَبَعْضهمْ يُحسنهُ) وَعَن أبي رزين الْعقيلِيّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكُلُّنَا يَرَى رَبَّهُ مُخْلِيًا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «بَلَى» . قَالَ: وَمَا آيَةُ ذَلِكَ فِي خَلْقِهِ؟ قَالَ: «يَا أَبَا رَزِينٍ أَلَيْسَ كُلُّكُمْ يَرَى الْقَمَرَ لَيْلَةَ البدرِ مُخْلِيًا بِهِ؟» قَالَ: بَلَى. قَالَ: «فَإِنَّمَا هُوَ خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَجَلُّ وَأَعْظَمُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا قیامت کے روز ہم سب اللہ کو اکیلے اکیلے دیکھیں گے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، کیوں نہیں۔ میں نے عرض کیا: اس کی نشانی کیا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو رزین! کیا تم سب چودھویں رات کے چاند کو اکیلے اکیلے نہیں دیکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا، جی ہاں (دیکھتے ہیں)، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ (چاند) تو اللہ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ اجل و اعظم ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5658]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (4731)
وَبَعْضهمْ يُحسنهُ)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. معراج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا تھا
حدیث نمبر: 5659
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ سَأَلَتْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مسئلہ دریافت کیا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (وہ) نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5659]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (291/ 178)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا یا نہیں
حدیث نمبر: 5660
وَعَن ابْن عَبَّاس: (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى.... وَلَقَدْ رَآهُ نزلة أُخْرَى) قَالَ: رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي رِوَايَة لِلتِّرْمِذِي قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ. قَالَ عِكْرِمَةُ قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: (لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يدْرك الْأَبْصَار)؟ قَالَ: وَيحك إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ وَقَدْ رأى ربه مرَّتَيْنِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: اس (رسول) نے جو کچھ دیکھا (آپ کے) دل نے اس میں دھوکہ نہیں کھایا۔ اور آپ نے اس کو ایک اور بار بھی دیکھا۔ کے بارے میں فرمایا: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے، فرمایا: محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے، عکرمہ ؒ نے فرمایا: کیا اللہ فرماتا نہیں؟ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں جبکہ وہ آنکھوں کا ادراک کر سکتا ہے۔ فرمایا: تجھ پر افسوس ہے! یہ تب ہے جب وہ اپنے اس نور کے ساتھ تجلی فرمائے جو کہ اس کا نور ہے، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ رواہ مسلم و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5660]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (285 / 176) و الترمذي (3279 وقال: حسن غريب) و حديث الترمذي حديث حسن و رواه ابن خريمة في التوحيد (ص 198 ح 273) وابن أبي عاصم في السنة (437/ 446) بسند حسن به .»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. وہ تو جبرائیل تھے، اللہ رب العزت تو نہیں تھے
حدیث نمبر: 5661
وَعَن الشّعبِيّ قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ فَكَبَّرَ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ. فَقَالَ كَعْبٌ: إِنَّ اللَّهَ قَسَّمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسَى فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ. قَالَ مسروقٌ: فَدخلت على عَائِشَة فَقلت: هَل رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَيْءٍ قَفَّ لَهُ شَعَرِي قُلْتُ: رُوَيْدًا ثُمَّ قَرَأْتُ (لقد رأى من آيَات ربّه الْكُبْرَى) فَقَالَتْ: أَيْنَ تَذْهَبُ بِكَ؟ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ. مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ أَوْ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُمِرَ بِهِ أَوْ يَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ) فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَمَرَّةً فِي أَجْيَادٍ لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَرَوَى الشَّيْخَانِ مَعَ زِيَادَةٍ وَاخْتِلَافٍ وَفِي رِوَايَتِهِمَا: قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: فَأَيْنَ قَوْلُهُ (ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى)؟ قَالَتْ: ذَاكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الْأُفُقَ
شعبی ؒ بیان کرتے ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ، کعب رضی اللہ عنہ کو عرفات کے میدان میں ملے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کسی چیز کے متعلق مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے (زور سے) اللہ اکبر کہا حتی کہ پہاڑوں نے انہیں جواب دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم بنو ہاشم ہیں، کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور موسی ؑ کے درمیان تقسیم فرمایا ہے، موسی ؑ نے دو مرتبہ کلام کیا ہے جبکہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دو مرتبہ دیکھا ہے۔ مسروق ؒ بیان کرتے ہیں میں عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے پوچھا کیا محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: تم نے ایسی چیز کے متعلق بات کی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں، میں نے عرض کیا: ذرا سکون فرمائیں، پھر میں نے یہ آیت تلاوت کی: اس (رسول صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) نے اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا: یہ (آیت) تمہیں کدھر لے جا رہی ہے؟ اس سے مراد تو جبریل ؑ ہیں، جو شخص تمہیں یہ بتائے کہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جس کے متعلق آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو (بیان کرنے کا) حکم دیا گیا تھا تو آپ نے اس میں سے کوئی چیز چھپا لی؟ یا آپ وہ پانچ چیزیں جانتے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، اور وہی بارش برساتا ہے۔ اور یہ (کہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے) تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہے، لیکن آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل ؑ کو دیکھا ہے اور آپ نے انہیں ان کی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ ہی دیکھا ہے، ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک مرتبہ اجیاد (مکہ کے نشیبی علاقے) کے پاس، اس کے چھ سو پر ہیں۔ اور اس نے افق کو بھر دیا تھا۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے کچھ اضافے اور کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے، ان کی روایت میں ہے، مسروق ؒ نے کہا: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا، تو کمان کا یا اس سے بھی کم فرق رہ گیا۔ کا کیا معنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: وہ (جبریل ؑ) آدمی کی صورت میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا کرتے تھے، اور اس مرتبہ وہ اپنی اس صورت میں آئے تھے جو کہ ان کی اصل صورت ہے، تو افق بھر گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و اصل الحدیث عند البخاری و مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5661]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3278)
٭ فيه مجالد بن سعيد: ضعيف و أصل الحديث عند البخاري [4855] و مسلم [177] بغير ھذا اللفظ) والرواية الثانية صحيحة متفق عليھا (رواھا البخاري: 3235 و مسلم: 290/ 177)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف


Previous    10    11    12    13    14    15    16    17    18    Next