علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دنیا گزر رہی ہے جبکہ آخرت آ رہی ہے، اور دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں، تم آخرت کے طلبگار بنو اور دنیا کے طلبگار نہ بنو کیونکہ آج عمل (کا وقت) ہے اور حساب نہیں جبکہ کل حساب ہو گا اور عمل نہیں ہو گا۔ “ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5215]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري في الرقاق (باب: 4 قبل ح 6417) وانظر تغليق التعليق (5/ 158، 159)»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه البخاري في الرقاق (باب: 4 قبل ح 6417)
--. تمام بھلائیاں جنت میں اور تمام برائیاں دوزخ میں
عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا: ”سن لو! دنیا ایک حاضر مال ہے، نیک بھی اس سے کھاتا ہے اور فاجر بھی، سن لو! آخرت ایک اٹل حقیقت ہے، اس وقت قادر مطلق بادشاہ (نیک و فاجر کے درمیان) فیصلہ کرے گا، سن لو! خیر مکمل طور پر جنت میں ہے اور سن لو! شر مکمل طور پر جہنم میں ہے، اور سن لو! عمل کرتے رہو، تم اللہ کی طرف سے (وقوع شر کے خوف سے) ڈرتے رہو، اور جان لو کہ تمہیں تمہارے اعمال پر پیش کیا جائے گا، جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ “ امام شافعی نے اسے روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الشافعی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5216]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الشافعي في الأم (1/ 202) ٭ فيه إبراهيم بن محمد بن أبي يحيي: متروک و السند مرسل .»
شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”لوگو! بے شک دنیا حاضر مال ہے، ہر نیک و فاجر اس سے کھاتا ہے، آخرت اٹل حقیقت اور سچا وعدہ ہے، عادل قادر بادشاہ اس وقت فیصلہ فرمائے گا، وہ اس میں حق کو ثابت کر دے گا اور باطل کو ناپید کر دے گا، آخرت کے طلبگار بنو، دنیا کے طلبگار نہ بنو، بے شک ہر بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5217]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه أبو نعيم في حلية الأولياء (1/ 264، 265) ٭ فيه أبو مھدي سعيد بن سنان: متروک متھم .»
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں کناروں پر دو فرشتے آواز دیتے ہیں، وہ جنوں اور انسانوں کے سوا ساری مخلوق کو (اپنی آواز) سناتے ہیں: لوگو! اپنے رب کی طرف آؤ، جو (مال) تھوڑا اور کافی ہو وہ اس (مال) سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور (اللہ کی یاد سے) غافل کر دے۔ “ دونوں احادیث کو ابونعیم نے الحلیہ میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5218]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو نعيم في حلية الأولياء (1/ 226) [و أحمد (5/ 197 ح 22064) ] ٭ قتادة مدلس و عنعن و مع ذلک صححه ابن حبان (الموارد: 814، 2476) و الحاکم (2/ 444. 445) ووافقه الذھبي (!) و حديث البخاري (1442) و مسلم (1010) يغني عنه .»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوع روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب فوت ہونے والا فوت ہوتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں: اس نے (اعمال میں سے) آگے کیا بھیجا ہے؟ اور انسان کہتے ہیں، اس نے (مال میں سے) پیچھے کیا چھوڑا ہے؟“ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5219]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10475، نسخة محققة: 9992) ٭ الأعمش مدلس و عنعن و کذا عبد الرحمٰن بن محمد المحاربي من المدلسين و فيه علة أخري .»
امام مالک ؒ سے روایت ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ”بیٹے! بے شک لوگوں سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ان پر دراز ہو چلا ہے، اور وہ آخرت کی طرف تیز چلے جا رہے ہیں، اور جب سے تو دنیا میں آیا ہے اس وقت سے تو اسے (آہستہ آہستہ) پیچھے چھوڑ رہا ہے اور آخرت کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے، بے شک وہ گھر جس کی طرف تو محو سفر ہے، وہ تیرے اس گھر سے، جہاں سے تو روانہ ہوا ہے، زیادہ قریب ہے۔ “ لم اجدہ، رواہ رزین۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5220]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «لم أجده، رواه رزين (لم أجده)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، کون سا آدمی سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہر صاف دل، راست گو۔ “ صحابہ نے عرض کیا، ہم راست گو کے متعلق تو جانتے ہیں، صاف دل سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ صاف و پاک جس پر کوئی گناہ ہے نہ کوئی ظلم اور نہ ہی کوئی کینہ و حسد۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5221]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه ابن ماجه (4216) و البيھقي في شعب الإيمان (6604)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چار چیزیں ایسی ہیں جب وہ تم میں ہوں تو پھر اگر تمہیں دنیا نہ بھی ملے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں، حفظ امانت، صدق کلام، حسن اخلاق اور (حرام) کھانے سے پرہیز کرنا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5222]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (2/ 177 ح 6652) و البيھقي في شعب الإيمان (4801) [و ابن وھب في الجامع (546) ] ٭ فيه عبد الله بن لھيعة مدلس و عنعن و في الحديث علة أخري، انظر شعب الإيمان (5258) و مکارم الأخلاق للخرائطي (31، 159، 306) وھي مظنة الإنقطاع بين الحارث بن يزيد الحضرمي و بين عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنه، و الله أعلم و بنحو ھذا الحديث روي ابن وھب (547) و ابن المبارک في الزھد (1204) موقوفًا علي عبد الله بن عمرو رضي الله عنه و سنده حسن .»
امام مالک سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ لقمان حکیم سے پوچھا گیا، جس مقام پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس مقام پر آپ کو کون سی باتوں نے پہنچایا؟ انہوں نے فرمایا: راست گوئی، امانت کی ادائیگی اور فضول باتوں چیز کو چھوڑ دینا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ مالک۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5223]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه مالک في الموطأ (2/ 990 ح 1926 بدون سند)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال (اللہ کے حضور سفارش کرنے کے لیے) آئیں گے، نماز آئے گی، اور عرض کرے گی، رب جی! میں نماز ہوں، وہ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، صدقہ آئے گا، وہ عرض کرے گا، رب جی! میں صدقہ ہوں، وہ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، پھر روزہ آئے گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! میں روزہ ہوں، وہ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، پھر اسی طرح اعمال آتے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا جائے گا: تو خیر پر ہے، پھر اسلام آئے گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو خیر پر ہے، آج میں تیری وجہ سے مؤاخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: ”جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5224]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (362/2 ح 8727) ٭ عباد بن راشد صدوق لکنه وھم في قوله: ’’الحسن ثنا أبو ھريرة‘‘ و الصواب أن الحسن لم يسمع من أبي ھريرة رضي الله عنه .»