انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی ایسا شخص ہے جو پانی پر چلتا ہو لیکن اس کے پاؤں گیلے نہ ہوتے ہوں؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا دار شخص اسی طرح ہے، وہ گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ “ ان دونوں احادیث کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5205]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10457، نسخة محققة: 9973) ٭ خضر بن أبان الھاشمي و ھلال بن محمد العجلي ضعيفان و في السند علل أخري .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. مجھ پر وحی دولت جمع کرنے کے لئے نازل نہیں ہوئی
جبیر بن نفیر ؒ مرسل روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہو جاؤں، بلکہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ ”اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں حتیٰ کہ آپ وفات پا جائیں۔ “ شرح السنہ، اور ابونعیم نے ابو مسلم سے حلیہ میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ و فی حلیہ الاولیاء۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5206]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (14/ 237 ح 4036) و أبو نعيم في حلية الأولياء (171/2 ح1778) ٭ السند مرسل .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. دنیاوی مال و دولت پر فخر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے حلال طریقے سے، مانگنے سے بچنے کے لیے، اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لیے دنیا طلب کی تو وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح (چمکتا) ہو گا۔ اور جس شخص نے حلال طریقے سے، مال میں اضافہ کرنے کے لیے، باہم فخر کرنے کے لیے اور ریاکاری کے لیے دنیا طلب کی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5207]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10374. 10375، نسخة محققة: 9889. 9890) و أبو نعيم في حلية الأولياء (8/ 215) [و عبد بن حميد في المنتخب من المسند (1433) ] ٭ مکحول لم يسمع من أبي ھريرة رضي الله عنه و في السند الآخر رجل (مجھول) و في السندين علل أخري .»
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ خیر کے خزانے ہیں، ان خزانوں کی چابیاں ہیں، اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جسے اللہ نے خیر کے لیے چابی (کھولنے والا) بنا دیا اور شر کو بند کرنے والا بنا دیا، اور اس بندے کے لیے ہلاکت ہے جسے اللہ نے شر کھولنے والا اور خیر کو بند کرنے والا بنایا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5208]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (238) ٭ عبد الرحمٰن بن زيد بن أسلم ضعيف جدًا، يروي الموضوعات عن أبيه .»
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندے کے کسی مال میں برکت نہ رکھی جائے تو وہ اس مال کو پانی اور مٹی (یعنی تعمیر) پر صرف کرتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5209]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10719، نسخة محققة: 10234) ٭ فيه عبد الأعلي بن أبي المساور (متروک) عن خالد الأحول عن علي إلخ و في السند علة أخري .»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تعمیرات کے سلسلے میں (ارتکاب) حرام سے بچو، کیونکہ وہ خرابی کی اساس ہے۔ “ دونوں روایات کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5210]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10722، نسخة محققة: 10237) ٭ فيه معاوية بن يحيي الصدفي ضعيف و علل أخري .»
عائشہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں، اس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں، اور اس (دنیا) کے لیے وہی جمع کرتا ہے جو عقل مند نہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5211]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (6/ 71 ح 24923) و البيھقي في شعب الإيمان (10638، نسخة محققة: 10154) [و ابن أبي الدنيا في ذم الدنيا (182) و أحمد (6/ 71) ] ٭ أبو إسحاق مدلس و عنعن في السند علة أخري .»
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوران خطبہ فرماتے ہوئے سنا: ”شراب تمام گناہوں کا مجموعہ ہے، عورتیں شیطان کے جال ہیں، اور دنیا کی محبت ہر گناہ کی اصل و بنیاد ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عورتوں کو پیچھے رکھو جیسے اللہ نے انہیں پیچھے رکھا۔ “ لم اجدہ، رواہ رزین۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5212]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «لم أجده، رواه رزين (لم أجده) ٭ و للحديث شاھد عند الدارقطني (4/ 247 ح 4564) وغيره من حديث زيد بن خالد به و سنده ضعيف، فيه عبد الله بن مصعب و أبوه مجھولان . قوله: ’’أخر و النساء حيث أخرھن الله‘‘ رواه عبد الرزاق (194/3 ح 5115 موقوفًا) عن ابن مسعود رضي الله عنه و سنده ضعيف و للأثر شاھد ضعيف منقطع عند الطبراني في الکبير (9/ 342 ح 9485)»
اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں اسے حسن سے مرسل روایت کیا ہے: ”دنیا کی محبت تمام گناہوں کی بنیاد ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5213]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10501، نسخة محققة: 10019) [و ابن أبي الدنيا في ذم الدنيا (90) ] ٭ رجاله ثقات و فيه شک الراوي بين المدلس وغير المدلس فالسند ضعيف، وضعيف إلي الحسن رحمه الله ولوصح فمرسل و المرسل رده جمھور المحدثين و تحقيقھم ھو الراجح .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. امت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندیشے
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنی امت کے متعلق خواہش نفس اور طول آرزو کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے، کیونکہ خواہش نفس حق سے روکتی ہے جبکہ طول آرزو آخرت بھلا دیتی ہے، اور یہ دنیا (غیر محسوس طریقے سے) چلی جا رہی ہے جبکہ آخرت (اسی طرح) چلی آ رہی ہے، اور دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں، تم دنیا کے طلبگار نہ بنو، عمل کرتے رہو، کیونکہ آج تم دارِ عمل میں ہو اور کوئی حساب نہیں، اور کل دارِ آخرت میں ہو گے اور کوئی عمل نہیں ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5214]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10616، نسخة محققة: 10132) ٭ فيه علي بن أبي علي اللھبي: منکر الحديث متروک .»