عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے فلاح پائی جس نے (اپنے رب کی) اطاعت کر لی اور اسے بقدر ضرورت رزق عطا کیا گیا اور اللہ نے جو اسے عطا کیا اس پر اس نے قناعت اختیار کی۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5165]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (125/ 1054)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالانکہ اس کا مال فقط تین صورتوں میں ہے جو اس نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا یا (اللہ کی راہ میں) دے کر ذخیرہ کر لیا، اور جو ان کے علاوہ ہے وہ تو اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5166]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (2959/4)»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں، ان میں سے دو واپس آ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے گھر والے، اس کا مال اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں، اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آ جاتے ہیں، اور اس کے اعمال (اس کے ساتھ) باقی رہ جاتے ہیں۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5167]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6514) و مسلم (2960/5)»
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے جانے والا مال ہی اپنا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارثوں کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال اپنے وارثوں کے مال سے زیادہ پسند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا جبکہ وہ مال جو اس نے پیچھے چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے۔ “ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5168]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (6442)»
مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ (اس وقت) سورۂ تکاثر کی تلاوت فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اے ابن آدم! حالانکہ تیرا مال تو صرف وہ ہے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا، یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یا صدقہ کر کے (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5169]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (2958/3)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مال داری، مال اور سازو سامان کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ مال داری تو نفس کی مال داری (یعنی قناعت) ہے۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5170]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6446) و مسلم (1051/120)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھے اور ان پر عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں، چنانچہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ ااور پانچ چیزیں شمار کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”محارم (اللہ کی حرام کردہ چیزوں) سے بچ جاؤ، اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزرا بن جاؤ گے، اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے اس پر راضی ہو جاؤ اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ غنی بن جاؤ گے، اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو گے تو مومن بن جاؤ گے، لوگوں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو، تو مسلمان بن جائے گا، زیادہ مت ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ “ احمد، ترمذی، اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5171]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه أحمد (310/2ح 8081) و الترمذي (2305) ٭ أبو طارق مجھول والحسن البصري مدلس و عنعن .»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ فرماتا ہے: انسان! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں تیرے دل کو مال داری (قناعت) سے بھر دوں گا، تیری محتاجی ختم کر دوں گا اور اگر تو (ایسے) نہیں کرے گا تو میں تمہیں کاموں میں مصروف کر دوں گا اور تیری محتاجی ختم نہیں کروں گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5172]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (358/2 ح 8681) و ابن ماجه (4107)»
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی کی عبادت اور اس میں بھرپور انہماک کا ذکر کیا گیا اور دوسرے آدمی کا تقویٰ و احتیاط برتنے کا ذکر کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تقویٰ کے ساتھ (اس عبادت و اجتہاد کا) موازنہ نہ کرو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5173]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2519 و قال:غريب) ٭ محمد بن عبد الرحمٰن بن نبيه: مجھول الحال.»
عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔ “ امام ترمذی نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ حسن، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5174]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الترمذي (لم أجده) [و البغوي في شرح السنة (14/ 224 ح 2021) و ابن المبارک في الزھد (2) و النسائي في الکبري کما في تحفة الأشراف (13/ 328 ح 19179) ] ٭ السند مرسل و رواه الحاکم (4/ 306) موصولاً من حديث ابن عباس و صححه علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي و سنده حسن .»