عبید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں شہید کر دیا گیا، پھر دوسرا اس کے تقریباً ایک ہفتے بعد فوت ہو گیا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کے لیے کیا دعا کی؟“ انہوں نے عرض کیا، ہم نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اس کی مغفرت فرمائے، اس پر رحم فرمائے اور اسے اس کے ساتھی سے ملائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی وہ نمازیں جو اس نے اس کی نمازوں کے بعد پڑھیں وہ کہاں گئیں؟ اور اس نے اس کے بعد جو عمل کیے وہ کہاں گئے؟“ یا فرمایا: ”اس نے اس کے بعد جو روزے رکھے تو وہ کہاں گئے؟“ ان دونوں کے مابین تو زمین و آسمان کے مابین فاصلے سے زیادہ فاصلہ ہے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد و النسائی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5286]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أبو داود (2524) و النسائي (4/ 74 ح 1987)»
ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تین خصلتیں ہیں، میں ان پر قسم اٹھاتا ہوں اور میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، تم اسے یاد کر لو، وہ چیزیں جن پر میں قسم اٹھاتا ہوں یہ ہیں: صدقہ کرنے سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا، جس بندے کی حق تلفی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے بدلے میں اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے، اور بندہ جب کسی سے سوال کرتا ہے تو اللہ اسے فقر میں مبتلا کر دیتا ہے، رہی وہ بات جو میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں اس کو خوب یاد رکھنا۔ “ پس فرمایا: ”دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک وہ بندہ جسے اللہ نے مال اور علم عطا کیا ہو اور وہ اس (علم) کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہو، صلہ رحمی کرتا ہو اور وہ اس (علم) کے مطابق اللہ کی خاطر عمل کرتا ہو، یہ سب سے افضل درجہ ہے۔ ایک وہ بندہ جسے اللہ نے علم دیا ہو لیکن اسے رزق نہ دیا ہو، اور وہ نیت کا اچھا ہے، وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں (مالدار) شخص کی طرح خرچ کرتا، ان دونوں کے لیے اجر برابر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال عطا کیا لیکن علم نہیں دیا تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، اور وہ نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے اور نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اسے حق کے مطابق خرچ کرتا ہے، یہ شخص انتہائی برے درجے پر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال دیا نہ علم، وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح عمل (یعنی خرچ) کرتا، وہ صرف نیت ہی کرتا ہے جبکہ دونوں کا گناہ برابر ہے۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ سندہ ضعیف، واہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5287]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2325) ٭ يونس بن خباب ضعيف رافضي و للحديث طريق آخر معلول (ضعيف) عند أحمد (4/ 230 ح 1802) بمتن آخر .»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اسے (اطاعت والے) کاموں پر لگا دیتا ہے۔ “ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ اسے کس طرح کام پر لگاتا ہے؟ فرمایا: ”موت سے پہلے اسے صالح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5288]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الترمذي (2142 و قال: صحيح)»
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دانا شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد کے لیے عمل کیے، اور کم عقل شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس کو خواہش کے تابع کیا اور اللہ پر امید باندھ لی (کہ وہ غفور و رحیم) ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5289]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2459) و ابن ماجه (4260) ٭ أبو بکر بن أبي مريم ضعيف مختلط .»
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک مجلس میں تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے سر پر پانی (یعنی غسل) کے اثرات تھے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کو خوش طبع دیکھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، پھر لوگوں نے مال داری کے متعلق غور و خوض کرنا شروع کر دیا (کیا وہ جائز ہے یا ناجائز؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے اس کے لیے مال داری میں کوئی مضائقہ نہیں، تقویٰ والے شخص کے لیے صحت مال داری سے بہتر ہے، اور حقیقی خوشی نعمتوں میں سے ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5290]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أحمد (5/ 372 ح 23545) [و ابن ماجه (2141) ] »
سفیان ثوری ؒ بیان کرتے ہیں، ماضی میں مال ناپسندیدہ چیز تھی، جبکہ آج وہ مومن کی ڈھال ہے، اور فرمایا: اگر (ہمارے پاس) دینار نہ ہوتے تو یہ بادشاہ ہمیں بے وقعت سمجھتے، اور فرمایا: جس شخص کے ہاتھ میں مال ہو وہ اسے کارآمد بنائے (ضائع نہ کرے) کیونکہ یہ ایسا دور ہے کہ اگر وہ ضرورت مند ہوا تو وہ پہلا شخص ہو گا جو (حصول دنیا کے لیے) اپنا دین بیچ ڈالے گا، اور فرمایا: حلال فضول خرچی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضعیف مردود، رواہ فی شرح السنہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5291]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «ضعيف مردود، رواه البغوي في شرح السنة (14/ 291 بعد 4098 بدون سند و لم أجده مسندًا)»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت منادی کرنے والا منادی کرے گا: ساٹھ سالے کہاں ہیں؟“ اور یہ (ساٹھ سال) وہ عمر ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”کیا ہم نے تمہیں عمر عطا نہیں کی تھی، جس نے نصیحت پکڑنی تھی وہ نصیحت پکڑتا، اور تمہارے پاس آگاہ کرنے والے بھی آئے۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5292]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10254، نسخة محققة: 9773) ٭ فيه إبراهيم بن الفضل المخزومي: متروک و أبو بکر بن أبي دارم: کذاب و لکنه توبع، انظر المعجم الکبير للطبراني (11/ 177. 178 ح 11415)»
عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، بنو عذرہ کے تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو ان کے (کھانے پینے کی) مجھ سے ذمہ داری اٹھا لے؟“ طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں، چنانچہ وہ (تینوں) انہیں کہ پاس تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا تو ان میں سے ایک اس لشکر کے ساتھ ہو گیا اور وہ شہید ہو گیا، پھر آپ نے ایک لشکر روانہ کیا تو دوسرا شخص اس کے ساتھ گیا تو وہ بھی شہید ہو گیا، پھر تیسرا شخص اپنے بستر پر فوت ہو گیا، راوی بیان کرتے ہیں، طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے (خواب میں) تینوں کو جنت میں دیکھا اور بستر پر وفات پانے والے کو ان کے آگے دیکھا، جو بعد میں شہید ہوا تھا وہ اس کے ساتھ تھا جبکہ پہلے شہید ہونے والا شخص اس دوسرے (شہید) کے ساتھ تھا، چنانچہ اس سے مجھے اشکال پیدا ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو اس سے کون سی چیز عجیب لگی؟ اللہ کے ہاں اس مومن سے افضل کوئی شخص نہیں جسے اسلام میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ کہنے کے لیے طویل عمر دی جائے۔ سندہ ضعیف، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5293]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه أحمد (1/ 163 ح 1401) ٭ السند مرسل و له طريق آخر عند البزار (954 کشف الأستار) و أبي يعلي (634) و سنده ضعيف .»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
--. کاش کہ میں دنیا میں لوٹا دیا جاؤں اور خوب عبادت کروں
محمد بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی تھے، ان سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اگر بندہ اپنے یوم پیدائش سے لے کر بوڑھا ہو کر مرنے تک اللہ کی اطاعت میں سجدہ ریز رہے تو وہ روز قیامت اس کو بھی حقیر سمجھے گا اور وہ آرزو کرے گا کہ کاش اسے دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تا کہ وہ اجر و ثواب میں اضافہ کر سکے۔ “ دونوں روایات کو امام احمد نے نقل کیا ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5294]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أحمد (4/ 185 ح 17800)»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد حساب کے بغیر جنت میں جائیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑ کراتے ہیں اور نہ بدشگونی لیتے تھے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے تھے۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5295]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6472) و مسلم (371 / 218)»