الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب الجهاد
كتاب الجهاد
--. مسلمان پر جزیہ نہیں
حدیث نمبر: 4037
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ فِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ جِزْيَةٌ» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک ملک میں دو قبیلے (یعنی دین) درست نہیں اور نہ کسی مسلمان پر جزیہ ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4037]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (223/1 ح 1949) و الترمذي (633) و أبو داود (3053)
٭ فيه يزيد بن أبي زياد: ضعيف و للحديث شواھد ضعيفة، منھا طريق أحمد (253/1، 313)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. جزیہ پر صلح کا بیان
حدیث نمبر: 4038
وَعَن أنس قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى أُكَيْدِرِ دُومَةَ فَأَخَذُوهُ فَأَتَوْا بِهِ فَحَقَنَ لَهُ دَمَهُ وَصَالَحَهُ على الْجِزْيَة. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دومہ کے بادشاہ اکیدر کی طرف بھیجا، وہ اسے گرفتار کر کے آپ کی خدمت میں لے آئے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی جان بخشی فرما دی اور فریقین کے مابین جزیہ پر صلح ہو گئی۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4038]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه أبو داود (3037)
٭ محمد بن إسحاق عنعن .»


قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف

--. دسویں حصے کا بیان
حدیث نمبر: 4039
وَعَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ جَدِّهِ أبي أُمِّه عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ
حرب بن عبیداللہ اپنے نانا سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: محصول تو یہود و نصاری پر ہے، مسلمانوں پر عُشر نہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4039]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (474/3 ح 15992) و أبو داود (3048)
٭ سفيان الثوري مدلس و عنعن و رجل من بکر بن وائل، لعله حرب و إلا فمجھول .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. جزیہ دینے والوں سے کوئی چیز کیسے لی جائے
حدیث نمبر: 4040
وَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَمَرُّ بِقَوْمٍ فَلَا هُمْ يُضَيِّفُونَا وَلَا هُمْ يُؤَدُّونَ مَا لنا عَلَيْهِم منَ الحقِّ وَلَا نَحْنُ نَأْخُذُ مِنْهُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ أَبَوْا إِلَّا أنْ تأخُذوا كُرهاً فَخُذُوا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم کسی قوم کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ نہ تو ہماری مہمان نوازی کرتے ہیں اور نہ وہ ہمارا وہ حق دیتے ہیں جو ان پر عائد ہوتا ہے اور ہم بھی ان سے اپنا حق (زبردستی) حاصل نہیں کرتے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ انکار کریں اور تمہیں زبردستی لینا پڑے تو لو۔ صحیح، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4040]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الترمذي (1589)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. جزیہ کی مقدار
حدیث نمبر: 4041
عَنْ أَسْلَمَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ضَرَبَ الْجِزْيَةَ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أربعةَ دنانيرَ وعَلى أهلِ الوَرِقِ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا مَعَ ذَلِكَ أَرْزَاقُ الْمُسْلِمِينَ وَضِيَافَةُ ثلاثةِ أيامٍ. رَوَاهُ مَالك
اسلم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر چار دینار اور چاندی والوں پر چالیس درہم جزیہ مقرر فرمایا، اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ضروریات زندگی اور تین دن کی ضیافت۔ اسنادہ صحیح، رواہ مالک۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4041]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه مالک (279/1 ح 623)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. حدیبیہ کا قصّہ
حدیث نمبر: 4042
عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَا: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ وَسَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ القَصْواءُ خلأت الْقَصْوَاء فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ» ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا» ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ يَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ يَلْبَثْهُ النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوهُ وَشُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَطَشَ فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهُ فِيهِ فو الله مَا زَالَ يَجِيشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الخزاعيُّ فِي نفَرٍ منْ خُزَاعَةَ ثُمَّ أَتَاهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ إِلَى أَنْ قَالَ: إِذْ جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالَ سُهَيْلٌ: وَاللَّهِ لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا صَدَدْنَاكَ عَنِ الْبَيْتِ وَلَا قَاتَلْنَاكَ وَلَكِنِ اكْتُبْ: مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَرَسُولُ اللَّهِ وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِي اكْتُبْ: مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ سُهَيْلٌ: وَعَلَى أَنْ لَا يَأْتِيَكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كانَ على دينِكَ إِلاَّ ردَدْتَه علينا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا» ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا جاءكُم المؤمناتُ مهاجِراتٌ) الْآيَةَ. فَنَهَاهُمُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ وَهُوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ رَجُلَيْنِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذَا بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ رأى هَذَا ذُعراً» فَقَالَ: قُتِلَ واللَّهِ صَحَابِيّ وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ» فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ قَالَ: وَانْفَلَتَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلٍ فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ فَجَعَلَ لَا يَخْرُجُ مِنْ قُرَيْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلَّا لَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ فو الله مَا يَسْمَعُونَ بِعِيرٍ خَرَجَتْ لِقُرَيْشٍ إِلَى الشَّامِ إِلَّا اعْتَرَضُوا لَهَا فَقَتَلُوهُمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَهُمْ فَأَرْسَلَتْ قُرَيْشٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُنَاشِدُهُ اللَّهَ وَالرَّحِمَ لَمَّا أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَمَنْ أَتَاهُ فَهُوَ آمِنٌ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم إِلَيْهِم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صلح حدیبیہ کے سال اپنے ہزار سے چند سینکڑے زیادہ صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کے جانوروں کے گلے میں قلادہ ڈالا، قربانی کا نشان لگایا اور اسی جگہ سے عمرہ کا احرام باندھا، اور چل پڑے حتی کہ جب آپ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے اتر کر اہل مکہ تک پہنچا جاتا تھا، وہاں آپ کی سواری آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے، حل، حل کہہ کر اٹھانے کی کوشش کی اور کہا کہ قصواء کسی عذر کے بغیر اڑی کر گئی، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قصواء نے اڑی نہیں کی اور اس کا یہ مزاج بھی نہیں، لیکن ہاتھیوں کو روکنے والے نے اسے روک لیا ہے۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ اللہ کی حرمات کی تعظیم کرنے کے متعلق مجھ سے جو مطالبہ کریں گے میں وہی تسلیم کر لوں گا۔ پھر آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا اور وہ تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی، آپ اہل مکہ کی گزر گاہ چھوڑ کر حدیبیہ کے آخری کنارے پر اترے جہاں برائے نام پانی تھا، لوگ وہاں سے تھوڑا تھوڑا پانی حاصل کرنے لگے اور تھوڑی دیر میں انہوں نے سارا پانی اس کنویں سے کھینچ لیا اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکالا، پھر انہیں حکم فرمایا کہ وہ اسے اس (پانی) میں رکھ دیں، اللہ کی قسم! ان کے لیے پانی خوب ابلتا رہا حتی کہ وہ اس جگہ سے آسودہ ہو کر واپس ہوئے، وہ اسی اثنا میں تھے کہ ہدیل بن ورقاء الخزاعی خزاعہ کے کچھ لوگوں کے ساتھ آیا، پھر عروہ بن مسعود آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، اور حدیث کو آگے بیان کیا، کہ سہیل بن عمرو آیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صلح کی۔ (اس پر) سہیل نے کہا: اگر ہمیں یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، تو ہم آپ کو بیت اللہ سے کیوں روکتے اور آپ سے قتال کیوں کرتے؟ بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھیں، راوی بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، (اچھا) لکھو، محمد بن عبداللہ، پھر سہیل نے کہا: اور اس شرط پر معاہدہ ہے کہ اگر ہماری طرف سے کوئی آدمی، خواہ وہ آپ کے دین پر ہو، آپ کے پاس آئے گا؟ آپ اسے ہمیں لوٹائیں گے، جب تحریر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، قربانی کرو، پھر سر منڈاؤ۔ پھر مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اسے اہل ایمان جب مومن عورتیں ہجرت کر کے آپ کے پاس آئیں ..... اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا کہ وہ ان (مومن عورتوں) کو (کفار کی طرف) واپس نہ کریں، اور انہیں حکم فرمایا کہ وہ حق مہر واپس کر دیں، پھر آپ مدینہ تشریف لے آئے تو قریش کے ابوبصیر، جو کہ مسلمان تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، قریش نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں ان کے حوالے کر دیا، وہ انہیں لے کر وہاں سے روانہ ہوئے حتی کہ جب وہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں میں سے ایک سے کہا: اے فلاں! اللہ کی قسم! تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ ہے، مجھے دکھاؤ میں بھی دیکھوں، اس شخص نے ان کو (تلوار) دے دی تو انہوں نے اسے ایک ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کر دیا جبکہ دوسرا فرار ہو کر مدینہ پہنچ گیا اور دوڑتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہو گیا نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص نے کوئی خوف زدہ منظر دیکھا ہے۔ اور اس نے کہا: اللہ کی قسم! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور میں قتل کیا ہی جانے والا ہوں، اتنے میں ابوبصیر بھی آ گئے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ماں برباد ہو، اگر ساتھی مل جائے تو یہ لڑائی کی آگ بھڑکا دے گا۔ جب انہوں نے سنا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ مجھے ان کے حوالے کر دیں گے، وہ وہاں سے نکل کر ساحل سمندر پر آ گئے، راوی بیان کرتے ہیں، ابوجندل بن سہل رضی اللہ عنہ بھی (مکہ سے) بھاگے اور ابوبصیر سے آ ملے، اب قریش کا جو بھی آدمی اسلام لا کر بھاگتا تو وہ ابوبصیر سے آ ملتا، حتی کہ ان کی ایک جماعت بن گئی، اللہ کی قسم! ان کو ملک شام کے لیے روانہ ہونے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے، انہیں قتل کرتے اور ان کا مال چھین لیتے، قریش نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بُلا لیں۔ اب جو شخص آپ کے پاس آ جائے تو وہ مامون رہے گا، (اس پر) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں (اپنے پاس) بُلا بھیجا۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4042]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (1694)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. صلح کی شرائط
حدیث نمبر: 4043
وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: صَالَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: عَلَى أَنَّ مَنْ أَتَاهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ رَدَّهُ إِلَيْهِمْ وَمَنْ أَتَاهُمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ لَمْ يَرُدُّوهُ وَعَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا مِنْ قَابِلٍ وَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ وَالسَّيْفِ وَالْقَوْسِ وَنَحْوِهِ فَجَاءَ أَبُو جَنْدَلٍ يَحْجِلُ فِي قُيُودِهِ فَرده إِلَيْهِم
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے روز مشرکین سے تین شرائط پر صلح کی، مشرکین میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کیا جائے گا، اور مسلمانوں کی طرف سے جو اُن کے پاس آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا اور وہ اگلے سال مکہ آئیں گے اور تین دن قیام کریں گے، اور وہ اپنا اسلحہ تلوار، کمان وغیرہ چھپا کر (نیام میں بند کر کے) لائیں گے۔ اتنے میں ابوجندل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں میں جھکڑے ہوئے آئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں واپس کر دیا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4043]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2698) و مسلم (1783/92)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح کا بیان
حدیث نمبر: 4044
وَعَن أنس: أَنَّ قُرَيْشًا صَالَحُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَرَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ جَاءَنَا مِنْكُمْ لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكُمْ وَمَنْ جَاءَكُمْ مِنَّا رَدَدْتُمُوهُ عَلَيْنَا فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَكْتُبُ هَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ إِنه من ذهبَ منَّا إِليهم فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ وَمَنْ جَاءَنَا مِنْهُمْ سَيَجْعَلُ اللَّهُ لَهُ فرجا ومخرجاً» . رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صلح کی تو انہوں نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ شرط عائد کی کہ تمہاری طرف سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے تمہیں واپس نہیں کریں گے، اور جو شخص ہماری طرف سے تمہارے پاس آئے گا تو تم اسے ہمیں واپس کرو گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم (یہ شرط) لکھ دیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، جو شخص ہماری طرف سے ان کی طرف جائے گا تو اللہ نے اسے دور کر دیا، اور جو شخص ان کی طرف سے ہمارے پاس آئے گا تو اللہ اس کے لیے عنقریب کوئی خلاصی کی راہ پیدا فرما دے گا۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4044]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (93/ 1784)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. عورتوں سے بیعت
حدیث نمبر: 4045
وَعَن عَائِشَة قَالَتْ فِي بَيْعَةِ النِّسَاءِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِهَذِهِ الْآيَة: (يَا أيُّها النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا جاءكَ المؤمناتُ يبايِعنَكَ) فَمَنْ أَقَرَّتْ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْهُنَّ قَالَ لَهَا: «قَدْ بَايَعْتُكِ» كَلَامًا يُكَلِّمُهَا بِهِ وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ
عائشہ رضی اللہ عنہ نے خواتین کی بیعت کے بارے میں فرمایا کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس آیت کے مطابق اس کا امتحان لیا کرتے تھے: اے نبی! جب مومن عورتیں آپ کے پاس آئیں اور اس بات پر آپ سے بیعت کریں ..... تو ان میں سے جو اِن شرائط کی پابندی کا اقرار کر لیتی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے فرماتے: میں نے تم سے بیعت لے لی۔ آپ ان سے بیعت فقط زبانی طور پر لیتے۔ اللہ کی قسم! بیعت کرتے وقت آپ کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4045]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2713) ومسلم (88/ 1866)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. دس سالہ امن معاہدہ
حدیث نمبر: 4046
عَن المِسْوَرِ وَمَرْوَانَ: أَنَّهُمُ اصْطَلَحُوا عَلَى وَضْعِ الْحَرْبِ عَشْرَ سِنِينَ يَأْمَنُ فِيهَا النَّاسُ وَعَلَى أَنَّ بَيْنَنَا عَيْبَةً مَكْفُوفَةً وَأَنَّهُ لَا إِسْلَالَ وَلَا إِغْلَالَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
مسور اور مروان سے روایت ہے کہ انہوں نے دس سال لڑائی بند رکھنے کا معاہدہ کیا، اس عرصہ میں لوگ امن سے رہیں گے، کسی غلط فہمی کا شکار ہوں گے اور نہ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھائیں گے (جان و مال کا تحفظ ہو گا)۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 4046]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أبو داود (2766)»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن


Previous    22    23    24    25    26    27    28    Next