الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب الجهاد
كتاب الجهاد
--. سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کا اعزاز
حدیث نمبر: 3977
عَن أم هَانِئ بنت أَي طالبٍ قالتْ: ذهبتُ إِلى رسولِ الله عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ فَسَلَّمْتُ فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ؟» فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: «مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ» فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ ثُمَّ انْصَرَفَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيٌّ أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ فُلَانَ بْنَ هُبَيْرَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أم هَانِئ» قَالَت أُمَّ هَانِئٍ وَذَلِكَ ضُحًى. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلتِّرْمِذِيِّ: قَالَتْ: أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قد أمنا من أمنت»
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی بیٹی فاطمہ ایک کپڑے سے آپ کو پردہ کیے ہوئے تھیں، میں نے سلام عرض کیا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے۔ میں نے (خود) عرض کیا: میں ام ہانی بنت ابی طالب ہوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام ہانی کے لیے خوش آمدید۔ جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے، اور ایک کپڑے میں لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں، پھر آپ فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری ماں کے بیٹے علی ارادہ رکھتے ہیں، کہ وہ ایک شخص فلان بن ہبیرہ کو قتل کر دیں جبکہ میں نے اس کو پناہ دی ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام ہانی! تم نے جسے پناہ دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی بیان کرتی ہیں: یہ چاشت کا وقت تھا۔ بخاری، مسلم۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے: وہ بیان کرتی ہیں، میں نے خاوند کے رشتہ داروں میں سے دو آدمیوں کو امان دی، تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے جسے امان دی، ہم نے بھی اسے امان دی۔ متفق علیہ و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3977]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3171) و مسلم (82/ 336) و الترمذي (1579)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. عورت بھی کافر کو امن دے سکتی ہے
حدیث نمبر: 3978
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَأْخُذُ لِلْقَوْمِ» يَعْنِي تُجيرُ على الْمُسلمين. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک عورت، قوم کفار کو مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتی ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3978]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (1579 وقال: حسن غريب)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. امن دے کر عہد شکنی کرنے والے کی روز آخرت رسوائی
حدیث نمبر: 3979
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «من أَمَّنَ رَجُلًا عَلَى نَفْسِهِ فَقَتَلَهُ أُعْطِيَ لِوَاءَ الْغَدْرِ يَوْمَ الْقَيَامَةِ» . رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ
عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے کسی شخص کو جان کی امان دی اور پھر اسے قتل کر دیا تو روزِ قیامت اسے عہد شکنی کا پرچم دیا جائے گا۔ صحیح، رواہ فی شرح السنہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3979]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه البغوي في شرح السنة (91/11 ح 2717) [و ابن ماجه (2688) و أحمد (223/5. 224) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. عہد برقرار رکھنے کی ایک عظیم مثال
حدیث نمبر: 3980
وَعَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ الرُّومِ عَهْدٌ وَكَانَ يَسِيرُ نَحْوَ بِلَادِهِمْ حَتَّى إِذَا انْقَضَى الْعَهْدُ أَغَارَ عَلَيْهِمْ فَجَاءَ رَجُلٌ عَلَى فَرَسٍ أَوْ بِرْذَوْنٍ وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لَا غدر فَنظر فَإِذا هُوَ عَمْرو ابْن عَبَسَةَ فَسَأَلَهُ مُعَاوِيَةُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يَحُلَّنَّ عَهْدًا وَلَا يَشُدَّنَّهُ حَتَّى يُمْضِيَ أَمَدَهُ أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ» . قَالَ: فَرَجَعَ مُعَاوِيَة بِالنَّاسِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
سلیم بن عامر ؒ بیان کرتے ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ اور رومیوں کے درمیان عہد تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں کی طرف سفر جاری رکھتے حتی کہ جب مدتِ معاہدہ پوری ہو جاتی تو آپ ان پر حملہ کر دیتے، ایک آدمی گھوڑے یا ترکی گھوڑے پر یہ کہتا ہوا آیا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفا کرو، عہد شکنی نہ کرو، لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کا کسی قوم سے کوئی عہد ہو تو وہ عہد کو توڑے نہ اسے منعقد کرے (کوئی تبدیلی یا تجدید نہ کرے) حتی کہ اس کی مدت گزر جائے یا وہ برابری کی سطح پر ان کی طرف معاہدہ توڑنے کا پیغام بھیج دے۔ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر واپس آ گئے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3980]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1580 و قال: حسن صحيح) و أبو داود (2759)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. مشرکین مکہ کے قاصد کو واپس بھیج دیا گیا
حدیث نمبر: 3981
وَعَن أبي رافعٍ قَالَ: بعثَني قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُلْقِيَ فِي قَلْبِيَ الْإِسْلَامُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا قَالَ: «إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ وَلَكِنِ ارْجِعْ فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ» . قَالَ: فَذَهَبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فَأسْلمت. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، قریش نے مجھے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا، جب میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی محبت و صداقت ڈال دی گئی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ان کی طرف لوٹ کر نہیں جاؤں گا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں عہد شکنی نہیں کروں گا، نہ قاصد کو روکوں گا، تم واپس چلے جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہ چیز ہوئی جو اب تمہارے دل میں ہے تو پھر لوٹ آنا۔ راوی بیان کرتے ہیں، میں گیا اور پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3981]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (2758)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. قاصدوں کے قتل کی ممانعت
حدیث نمبر: 3982
وَعَنْ نُعَيْمِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلَيْنِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ مُسَيْلِمَةَ: «أَمَّا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد
نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے آئے ہوئے دو آدمیوں سے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کو قتل کرنا روا ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3982]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (487/3. 488 ح 16085) و أبو داود (2761)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. غیر مسلموں سے بھی عہد پورا کرنا
حدیث نمبر: 3983
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خطْبَة: «أَوْفوا بِحلف الْجَاهِلِيَّة فَإِنَّهُ لَا يزِيد يَعْنِي الْإِسْلَامَ إِلَّا شِدَّةً وَلَا تُحْدِثُوا حَلِفًا فِي الإِسلامِ» . رَوَاهُ الترمذيُّ من طريقِ ابنِ ذَكْوَانَ عَنْ عَمْرٍو وَقَالَ: حَسَنٌ وَذَكَرَ حَدِيثَ عليٍّ: «المسلمونَ تَتَكَافَأ» فِي «كتاب الْقصاص»
عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا: جاہلیت کے عہد پورے کرو، کیونکہ اسلام اسے مضبوط کرتا ہے لیکن اسلام میں کوئی اور نیا عہد نہ کرو۔ (اسے امام ترمذی نے حسین بن ذکوان عن عمرو کے طریق سے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے) اور علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: مسلمان برابر ہیں ..... کتاب القصاص میں ذکر کی گئی ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3983]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (1585)
حديث علي تقدم (3475)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

--. مسیلمہ کذاب کے ایلچی
حدیث نمبر: 3984
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: جَاءَ ابْنُ النَّوَّاحَةِ وَابْنُ أُثَالٍ رَسُولَا مُسَيْلِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُمَا: «أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟» فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَوْ كُنْتُ قَاتِلًا رَسُولًا لَقَتَلْتُكُمَا» . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَمَضَتِ السُّنَّةُ أَنَّ الرَّسول لَا يُقتَلُ. رَوَاهُ أَحْمد
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کے قاصد بن کر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں، اگر میں کسی قاصد کو قتل کرنے والا ہوتا تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ سنت بن گئی کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جائے۔ ضعیف، رواہ احمد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3984]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «ضعيف، رواه أحمد (390/1. 391 ح 3708)
٭ المسعودي اختلط: روي عنه يزيد بن ھارون و أبو النضر ھاشم بن القاسم و عبد الرحمٰن بن مھدي و تابعه سفيان الثوري و سنده ضعيف و لحديثه شواھد ضعيفة عند أبي داود (2762) وغيره .»


قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف

--. مسلمانوں کے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا
حدیث نمبر: 3985
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ مِنْ قَبْلِنَا ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ رَأَى ضعفنا وعجزنا فطيها لنا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم میں سے پہلے کسی کے لیے بھی مالِ غنیمت حلال نہیں تھا، یہ اس لیے (حلال کیا گیا) کہ اللہ نے ہماری کمزوری اور عاجزی دیکھی تو اسے ہمارے لیے حلال فرما دیا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3985]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3124) و مسلم (32/ 1747)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. مقتول سے چھینے ہوئے مال کا حقدار قاتل ہے
حدیث نمبر: 3986
وَعَن أبي قتادةَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّيْفِ فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ: مَا بَالُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ ثُمَّ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ» فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ فَقُمْتُ فَقَالَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟» فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ رَجُلٌ: صَدَقَ وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنِّي فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا هَا اللَّهِ إِذاً لَا يعمدُ أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ فأعطه» فأعطانيه فاتبعت بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مالٍ تأثَّلْتُه فِي الإِسلامِ
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، غزوہ حنین کے سال ہم نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، جب ہم (مشرکین سے) ملے تو مسلمانوں کو ہزیمت کا سامنا ہوا، میں نے ایک مشرک شخص کو دیکھا جو ایک مسلمان شخص پر غالب آ چکا تھا، میں نے اس کے پیچھے سے اس کی رگ گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ دی، وہ میری طرف متوجہ ہوا تو اس نے مجھے اس قدر دبایا کہ مجھے اس کے (دبانے) سے اپنی موت نظر آنے لگی، لیکن موت اس پر آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کا حکم (ہی ایسے تھا)، پھر وہ (مسلمان) لوٹے اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے تو فرمایا: جس نے کسی مقتول کو قتل کیا اور اس پر اس کے پاس دلیل ہو تو اس (مقتول) کا سازو سامان اس (قاتل) کے لیے ہے۔ میں نے کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر وہی بات فرمائی، میں نے کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہی بات فرمائی تو میں کھڑا ہوا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوقتادہ! تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ میں نے آپ کو بتایا تو ایک شخص نے کہا اس نے سچ کہا، اور اس کا سازو سامان میرے پاس ہے اسے میری طرف سے راضی کر دیں۔ (اور مال میرے پاس ہی رہنے دیں) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اللہ کا شیر جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے قتال کرتا ہے، اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کا سازو سامان تجھے دیں گے، تب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌و��لم نے فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، پس اسے دو۔ چنانچہ اس نے اسے مجھے دے دیا، میں نے اس سے بنو سلمہ میں ایک باغ خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے حالتِ اسلام میں جمع کیا تھا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الجهاد/حدیث: 3986]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4321) و مسلم (41/ 1751)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next