سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، فتح مکہ کے سال میں شدید بیمار ہو گیا حتی کہ میں موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے پاس مال بہت زیادہ ہے۔ اور میری صرف ایک بیٹی اس کی وارث ہے، کیا میں اپنے سارے مال کے متعلق وصیت کر دوں؟ فرمایا: ”نہیں۔ “ میں نے عرض کیا، اپنے مال کا دو تہائی؟ فرمایا: ”نہیں۔ “ میں نے عرض کیا: نصف؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔ “ میں عرض کیا، تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی، جبکہ تہائی بھی زیادہ ہے، اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ تنگ دست ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تم اللہ کی رضا کے لیے جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں اجر دیا جائے گا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی اہلیہ کے منہ تک پہنچاتے ہو۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3071]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2742) و مسلم (1628/5)»
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں مریض تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے وصیت کی ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کتنے مال کی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنی اولاد کے لیے کیا چھوڑا ہے؟“ میں نے عرض کیا: وہ کافی مال دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دسویں حصے کی وصیت کر۔ “ میں اصرار کرتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا: ”تہائی کی وصیت کر، جبکہ تہائی بھی زیادہ ہے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3072]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الترمذي (975 و قال: حسن صحيح)»
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا، وارث کے لیے وصیت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ “ ابوداؤد، ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے یہ اضافہ نقل کیا: ”بچہ بیوی کے مالک کا ہے جبکہ زانی کے لیے پتھر (یعنی رجم) ہے، اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3073]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أبو داود (2870) و ابن ماجه (2713) و الترمذي (2120 وقال: حسن)»
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی سند سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وارث کو وصیت کا حق نہیں اِلاّ یہ کہ وارث چاہیں۔ “ یہ روایت منقطع ہے۔ یہ مصابیح کے الفاظ ہیں، اور دارقطنی کی روایت میں ہے: ”وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں، مگر یہ کہ ورثاء چاہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارقطنی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3074]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الدارقطني (98/4 ح 4109) [والطبراني في مسند الشاميين (325/3. 326 ح 2410) ٭ فيه عطاء الخراساني صدوق حسن الحديث و ثقه الجمھور و لکنه مدلس و عنعن و باقي السند حسن لذاته فالسند ضعيف من أجل عنعنته و قال الذهبي: ’’جيد الإسناد‘‘ (ميزان الاعتدال 481/4)“!!»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک آدمی اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتے رہتے ہیں، پھر انہیں موت آتی ہے تو وہ وصیت میں کسی کو نقصان پہنچا جاتے ہیں، تو ان دونوں کے لیے جہنم کی آگ واجب ہو جاتی ہے۔ “ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہے اور وہ وصیت نقصان پہنچانے والی نہ ہو .... اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3075]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (278/2 ح 7728) والترمذي (2117 وقال: حسن غريب) و أبو داود (2867) و ابن ماجه (2704)»
جابر رضی اللہ ع��ہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وصیت پر فوت ہوا تو وہ سیدھی راہ اور سنت پر فوت ہوا، وہ اطاعت گزاری اور شہادت پر فوت ہوا، اور وہ اس حال میں فوت ہوا کہ اس کی مغفرت کر دی گئی۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3076]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (2701) ٭ فيه يزيد: مجھول، و عمر بن صبح: متروک کذبه ابن راھويه، و أسقطه ا لمدلس محمد بن المصفي من السند و الصواب اثباته بين يزيد و أبي الزبير، انظر الکامل لابن عدي (1685/5)»
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، کہ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں، ان کے بیٹے ہشام نے ان کی طرف سے پچاس غلام آزاد کیے، اور ان کے بیٹے عمرو رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف سے پچاس غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو کہا: حتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کر لوں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے والد نے وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں، ہشام نے ان کی طرف سے پچاس آزاد کر دیے ہیں اور باقی پچاس رہ گئے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے آزاد کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ مسلمان مرتا تو تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، یا تم اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا تم اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کا اسے ثواب پہنچتا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3077]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (2883)»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے وارث کی میراث کاٹی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی جنت کی میراث کاٹ دے گا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا موضوع، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3078]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا موضوع، رواه ابن ماجه (2703 بلفظ: ’’من فر من ميراث وارثه‘‘ إلخ .) ٭ قال البوصيري: ’’ھذا إسناد ضعيف لضعف زيد العمي و ابنه عبد الرحيم‘‘ عبد الرحيم: کذاب فالسند موضوع .»
امام بیہقی نے اسے شعب الایمان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے۔ لم اجدہ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3079]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «لم أجده، رواه البيھقي في شعب الإيمان: لم أجده و لعله يشير إلي حديث: ’’من قطع ميراثًا فرضه الله و رسوله قطع الله ميراثًا من الجنة‘‘ رواه البيھقي في شعب الإيمان (نسخة محققة: 7594) و سنده ضعيف فيه سلم بن سليمان شيخ بالبصرة و لم أجد من وثقه . ] »