قبیصہ بن ذُویب بیان کرتے ہیں، دادی، نانی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور اس نے اپنی میراث کے بارے میں آپ سے مسئلہ دریافت کیا، تو انہوں نے اس سے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں، آپ جائیں حتی کہ میں لوگوں سے پوچھ لوں: انہوں نے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے اسے (یعنی دادی / نانی کو) چھٹا حصہ دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ تو محمد بن مسلمہ نے بھی ویسے ہی کہا جیسے مغیرہ نے کہا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس (دادی / نانی) کے متعلق اسے نافذ کر دیا، پھر ایک اور دادی / نانی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور اپنی میراث کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا: وہ چھٹا حصہ ہی ہے، اگر تم دونوں اکٹھی ہوں تو وہ تم دونوں کے درمیان تقسیم ہو گا، اور تم دونوں میں سے جو بھی اکیلی ہو گی تو وہ حصہ اسے ملے گا۔ “ صحیح، رواہ مالک و احمد و الترمذی و ابوداؤد و الدارمی و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3061]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه مالک (513/2 ح 1119) و أحمد (225/4 ح 18143) والترمذي (2101 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (2894) و ابن ماجه (2724) [والدارمي (359/2 ح 2949) عن الزھري منقطعًا] ٭ قبيصة صحابي صغير رضي الله عنه و ھذا من مراسيل الصحابة و مراسيل الصحابة مقبولة .»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. بیٹے کی مجودگی میں دادی یا نانی کے حصہ کا بیان
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس دادی کے بارے میں جسے اپنے بیٹے کے ساتھ حصہ ملا، فرمایا: وہ پہلی دادی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹے کی موجودگی میں چھٹا حصہ عطا کیا جبکہ اس کا بیٹا زندہ تھا۔ ترمذی، دارمی۔ امام ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3062]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2102) ٭ محمد بن سالم: ضعيف و روي الدارمي (358/2 ح 2935) من قول ابن مسعود: ’’إن أول جدة أطعمت في الإسلام سھمًا أم أب و ابنھا حي‘‘ و سنده ضعيف، محمد بن سيرين: لم يدرک ابن مسعود رضي الله عنه و أشعث بن سوار: ضعيف و للأثر شواھد ضعيفة عند البيھقي (226/6) وغيره .»
ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام خط لکھا کہ اَشیَم الضبابی کی اہلیہ کو اس کے خاوند کی دیت سے میراث دو۔ “ ترمذی، ابوداؤد۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3063]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه الترمذي (2110) و أبو داود (2927)»
تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا کہ اہل شرک میں سے اس آدمی کے بارے میں، جو کسی مسلمان شخص کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر لے، شرعی حکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کی حیات و ممات کے بارے میں تمام لوگوں سے زیادہ حق دار ہے۔ “ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3064]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الترمذي (2112) و ابن ماجه (2752) والدارمي (377/2 ح 3037)»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس نے صرف ایک غلام چھوڑا جس کو اس نے آزاد کیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس کا کوئی وارث ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، صرف وہ ایک غلام ہے جسے اس نے آزاد کیا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی میراث اس کو دے دی۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3065]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (2905) والترمذي (2106 وقال: حسن) و ابن ماجه (2741) ٭ عوسجة: حسن الحديث .»
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو مال کا وارث ہو سکتا ہے وہ ولاء کا وارث ہو گا۔ “ ترمذی، اور فرمایا: اس حدیث کی سند قوی نہیں۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3066]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2114) ٭ عبد الله بن لھيعة ضعيف لاختلاطه و له شاھد عند أحمد (22/1ح 147) و سنده معلل بالإنقطاع .»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو میراث دور جاہلیت میں تقسیم کی گئی تو وہ جاہلیت کی تقسیم کے مطابق ہے، اور جو میراث دور اسلام میں ہوئی تو وہ اسلام کی تقسیم کے مطابق ہے۔ “ حسن، رواہ ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3067]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه ابن ماجه (2749) ٭ و للحديث شاھد حسن عند ابن ماجه (2485)»
محمد بن ابی بکر بن حزم ؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے کئی مرتبہ سنا وہ کہا کرتے تھے: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پھوپھی کے متعلق تعجب سے کہا کرتے تھے کہ بھتیجا تو اس کا وارث بنتا ہے جبکہ وہ اس کی وارث نہیں بنتی۔ اسنادہ ضعیف، رواہ مالک۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3068]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه مالک (517/2 ح 1124) ٭ أبو بکر بن أبي حزم عن عمر رضي الله عنه منقطع، انظر جامع التحصيل للعلائي (ص 288) و الجوھر النقي (213/6)»
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فرائض (میراث کا علم) سیکھو۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اتنا اضافہ کیا، طلاق اور حج (کے متعلق بھی سیکھو) ان دونوں نے کہا: کیونکہ یہ تمہارے اہم دینی امور میں سے ہیں۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3069]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (2/ 341 ح 2853. 2854، نسخة محققة: 2892. 2893، 2853 عن عمر، السند منقطع، فيه مورق العجلي عن عمر و لم يدرکه، 2854 عن عمر، السند منقطع، إبراهيم عن عمر و لم يدرکه، و السند إلي إبراهيم ضعيف، الثوري و الأعمش مدلسان و عنھا و حديث ابن مسعود: ضعيف: 2859، السند منقطع، قاسم بن الوليد الھمداني لم يدرک من روي عنه.) انظر الحديث 111 ص 6»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان وصیت کرنا چاہتا ہے اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی یوں گزار دے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفرائض والوصايا/حدیث: 3070]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2738) و مسلم (1637/1)»