عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے، اور ہر چیز کا ایک مغز ہوتا ہے اور قرآن کا مغز مفصل سورتیں (سورۃ الحجرات سے الناس تک) ہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2179]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الدارمي (447/2ح 3380، نسخة محققة: 3420)»
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر چیز کا حسن و جمال ہوتا ہے جبکہ قرآن کا حسن و جمال سورۃ الرحمن ہے۔ “ اسنادہ موضوع۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2180]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (2494، نسخة محققة: 2265) ٭ فيه أحمد بن الحسن: دُبيس منکر الحديث، ليس بثقة و أبو عبد الرحمٰن السلمي الصوفي: ضعيف جدًا و علي بن الحسين بن جعفر لعله ابن کرنيب البزار و کان کذابًا .»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر رات سورۃ الواقعہ پڑھتا ہے تو وہ کبھی فاقے کا شکار نہیں ہو گا۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہر رات اسے پڑھا کریں۔ امام بیہقی نے ان دونوں کو شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2181]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (2498، نسخة محققة: 2269) ٭ السند مظلم و فيه شجاع: لم أعرفه و أبو الأحوص إسماعيل بن إبراهيم الإسفرائيني ينظر فيه .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. سورۃا الاعلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ سورۃ
حدیث نمبر: 2182
وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يجب هَذِهِ السُّورَةَ (سَبِّحِ اسْمِ رَبِّكَ الْأَعْلَى) رَوَاهُ أَحْمد
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سورت، سورۃ الاعلی کو پسند کرتے تھے۔ اسنادہ ضعیف جذا۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2182]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه أحمد (1/ 96ح 742) ٭ فيه ثوير بن أبي فاختة: ضعيف رمي بالرفض .»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے پڑھائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”الرٰٓ والی سورتوں (یونس، ھود، یوسف، ابراہیم، الحجر) میں سے تین سورتیں پڑھو۔ “ اس نے عرض کیا: میں عمر رسیدہ ہو گیا ہوں، میرا دل سخت ہو گیا ہے اور میری زبان موٹی ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حٰم والی سورتوں (المومن، الفصلت، الشوری، الزخرف، الدخان، الجاشیہ، الاحقاف) میں سے تین سورتیں پڑھو۔ “ اس نے پھر وہی عرض کیا، اس آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے کوئی جامع سورت پڑھائیں، تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سورۃ الزلزال پوری پڑھائی تو اس آدمی نے عرض کیا، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں اس پر کبھی بھی اضافہ نہ کروں گا، پھر وہ آدمی واپس چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: ”وہ آدمی فلاح پا گیا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2183]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (169/2 ح 6575 مختصرًا) و أبو داود (1399)»
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی ہر روز ہزار آیت پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا؟“ انہوں نے عرض کیا، ہر روز ہزار آیت کون پڑھ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی سورۃ التکاثر نہیں پڑھ سکتا؟“ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2184]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (2518، نسخة محققة: 2287) ٭ فيه عقبة بن محمد بن عقبة: لم أجد من وثقه و قال المنذري: ’’لا أعرفه‘‘ و قال الحاکم في المستدرک (566/1. 567): ’’عقبة ھذا غير مشھور‘‘ و أقره الذهبي .»
سعید بن مسیب ؒ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتا ہے تو اس کے بدلہ میں اس کے لیے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے، جو شخص بیس مرتبہ پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت میں دو محل بنا دیے جاتے ہیں اور جو شخص تیس مرتبہ پڑھتا ہے تو اس کے لیے اس کے بدلہ میں جنت میں تین محل بنا دیے جاتے ہیں۔ “ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! تب تو ہم اپنے محل زیادہ کر لیں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس سے بھی زیادہ کشائش و فراخی والا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2185]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (459/2، 460 ح 3432، نسخة محققة: 3472) ٭ السند حسن إلي سعيد بن المسيب والخبر مرسل .»
حسن بصری ؒ سے مرسل روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات میں سو آیات تلاوت کرتا ہے تو اس رات قرآن اس سے جھگڑا نہیں کرتا، جو شخص رات میں دو سو آیات پڑھتا ہے تو اس کے لیے رات بھر کا قیام لکھ دیا جاتا ہے، اور جو شخص رات میں پانچ سو سے ہزار آیات تلاوت کرتا ہے تو صبح کے وقت اس کے لیے ڈھیروں اجر ہو گا۔ “ انہوں نے عرض کیا، ڈھیروں سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”بارہ ہزار۔ “ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2186]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (466/2 ح 3426، نسخة محققة: 3502) ٭ السند مرسل و يونس بن عبيد بن دينار العبدي البصري مدلس و عنعن .»
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کی خبر گیری کرتے رہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے! وہ (قرآن سینوں سے) نکل جانے میں، اس اونٹ کے نکل جانے سے بھی زیادہ تیز ہے جس کی رسی کھل چکی ہو۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2187]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5033) و مسلم (791/231)»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے لیے یہ کہنا بہت ہی برا ہے کہ میں فلاں آیت بھول گیا ہوں، بلکہ (یوں کہے) مجھے بھلا دی گئی ہے، قرآن یاد کرتے رہا کرو کیونکہ وہ آدمیوں کے سینوں سے نکل جانے میں کھلے ہوئے اونٹوں سے بھی زیادہ تیز ہے۔ “ بخاری، مسلم۔ اور امام مسلم نے: ((بعقلھا)) کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2188]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5032) و مسلم (790/228)»