عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو کسی لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتا تو قراءت کے آخر میں سورۂ اخلاص پڑھتا، جب وہ واپس آئے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس سے پوچھو کے وہ ایسے کیوں کرتا تھا؟“ انہوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: کیونکہ وہ رحمان کی صفت ہے، اور میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بتا دو کہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2129]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7375) و مسلم (813/263)»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سورۂ اخلاص سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”بے شک تمہاری اس سے محبت ہی تمہیں جنت میں لے جائے گی۔ “ ترمذی۔ اور امام بخاری نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔ رواہ البخاری و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2130]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (2774) و الترمذي (2901)»
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج رات ایسی آیات نازل ہوئیں کہ ان جیسی پہلے نہیں دیکھی گئیں، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2131]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (814/264)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. معوذ تین اور سورۂ اخلاص کی فضیلت اور ان سے دم کرنے کا بیان
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر آرام کرتے تو آپ ہر رات اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کرتے، پھر سورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مارتے، پھر جہاں تک ممکن ہوتا انہیں اپنے جسم پر پھیرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سر، چہرے اور اپنے جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے اور آپ تین مرتبہ ایسا کرتے۔ متفق علیہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معراج سے متعلق ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث، ہم ان شاء اللہ تعالیٰ باب المعراج میں ذکر کریں گے۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2132]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5017) و مسلم (لم أجده) حديث ابن مسعود يأتي (5865)»
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں روز قیامت عرش کے نیچے ہوں گی، قرآن بندوں کی طرف سے جھگڑا کرے گا، اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور امانت بھی، جبکہ رحم آواز دے گا، سن لو! جس نے مجھے ملایا، اللہ اسے ملائے اور جس نے مجھے قطع کیا اللہ اسے قطع کرے۔ “ امام بغوی ؒ نے اسے شرح السنہ میں روایت کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2133]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (22/13. 23 ح 3433) ٭ فيه کثير بن عبد الله اليشکري لم يوثقه غير ابن حبان (354/7) و أورده العقيلي في الضعفاء، والحسن بن عبد الرحمٰن بن عوف: لم يوثقه غير ابن حبان، فھو مجھول الحال .»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حامل و عاملِ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتا جا اور چڑھتا جا، اور ویسے ترتیل سے پڑھ جیسے تو دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھا کرتا تھا، اور تو جہاں آخری آیت پڑھے گا وہیں تیری منزل ہو گی۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2134]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (192/2 ح 6799) والترمذي (2914 وقال: حسن صحيح .) و أبو داود (1464) والنسائي (في الکبري 22/5ح 8056، فضائل القرآن: 81) [و صححه ابن حبان (1790) والذهبي في تلخيص المستدرک (553/1) ] »
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پیٹ (دل) میں قرآن کا کچھ حصہ نہ ہو وہ بے آباد گھر کی طرح ہے۔ “ ترمذی، دارمی اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2135]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2913) و الدارمي (429/2 ح 3309) ٭ قابوس: فيه لين .»
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”رب تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: قرآن نے جس شخص کو میرے ذکر اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا ہو میں اسے اس سے بہتر عطا کرتا ہوں جو سوال کرنے والوں کو دیا جاتا ہے، اور اللہ کے کلام کو دیگر کلاموں پر ایسے ہی برتری حاصل ہے جیسے اللہ کو اپنی مخلوق پر برتری حاصل ہے۔ “ ترمذی، دارمی، بیہقی فی شعب الایمان، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2136]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2926) والدارمي (441/2 ح 3359) والبيھقي في شعب الإيمان (353/2 ح 2015) ٭ محمد بن الحسن بن أبي يزيد: ضعيف و للحديث شواھد .»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن کریم کا ایک حرف پڑھتا ہے تو اسے اس کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے، اور نیکی دس گنا بڑھ جاتی ہے، میں نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، میم ایک حرف ہے۔ “ ترمذی، دارمی اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سند کے لحاظ سے غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و الدارمی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2137]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (2910) و الدارمي (429/2 ح 3311 موقوف علي ابن مسعود رضي الله عنه)»
حارث اعور ؒ بیان کرتے ہیں، میں مسجد سے گزرا تو لوگ باتوں میں مشغول تھے، میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا: کیا انہوں نے ایسے کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: سن لو! بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سن لو! عنقریب فتنے پیدا ہوں گے۔ “ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب، اس میں سابقہ قوموں کے احوال اور مستقبل کے اخبار اور تمہارے مسائل کا حل ہے، وہ فیصلہ کن ہے، بے فائدہ نہیں، جس نے ازراہ تکبر اسے ترک کر دیا، اللہ نے اسے ہلاک کر ڈالا، جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہدایت تلاش کرنے کی کوشش کی تو اللہ نے اسے گمراہ کر دیا، وہ اللہ کی مضبوط رسی (یعنی وسیلہ) ہے، وہ ذکر حکیم اور صراط مستقیم ہے، اس کی وجہ سے خواہیش ٹیڑھی ہوتی ہیں نہ زبانیں اختلاط و التباس کا شکار ہوتی ہیں اور نہ علما اس سے سیر ہوتے ہیں، کثرت تکرار سے وہ پرانی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں، وہ ایسی کتاب ہے کہ جسے سن کر جن بے ساختہ پکار اٹھے کہ ”ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو رشد و بھلائی کی طرف راہنمائی کرتی ہے لہذا ہم اس پر ایمان لے آئے۔ “ جس نے اس کے حوالے سے کہا، اس نے سچ کہا، جس نے اس کے مطابق عمل کیا وہ اجر پا گیا، جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے اس کی طرف بلایا وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت پا گیا۔ “ ترمذی، دارمی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کی سند مجہول ہے اور حارث پر کلام کیا گیا ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2138]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2906) و الدارمي (435/2 ح 3334، 3335) ٭ الحارث الأعور: ضعيف جدًا .»