الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
ب. الفصل الثاني
حدیث نمبر: Q160
5.19. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں فرشتے کا آنا
حدیث نمبر: 161
‏‏‏‏عَن ربيعَة الجرشِي يَقُول أُتِي النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ لِتَنَمْ عَيْنُكَ وَلِتَسْمَعْ أُذُنُكَ وَلِيَعْقِلْ قَلْبُكَ قَالَ فَنَامَتْ عَيْنَايَ وَسَمِعَتْ أُذُنَايَ وَعَقَلَ قَلْبِي قَالَ فَقِيلَ لِي سيد بنى دَارا فَصنعَ مَأْدُبَةً وَأَرْسَلَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ -[57]- الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلم يطعم مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ قَالَ فَاللَّهُ السَّيِّدُ وَمُحَمَّدٌ الدَّاعِي وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ وَالْمَأْدُبَةُ الْجَنَّةُ. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
سیدنا ربیعہ جرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا، اور آپ سے عرض کیا گیا: آپ کی آنکھیں سوئی ہوئی ہوں (کسی اور طرف نہ دیکھیں) آپ کے کان توجہ سے سنتے ہوں اور آپ کا دل سمجھتا ہو، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری آنکھیں سو گئیں، میرے کان غور سے سنتے رہے اور میرا دل سمجھتا رہا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے کہا گیا: کسی سردار نے کوئی گھر بنایا، اس میں دسترخوان لگایا اور کسی دعوت دینے والے کو بھیجا، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا، وہ گھر میں داخل ہوا، کھانا کھایا اور وہ سردار اس سے خوش ہو گیا، اور جس شخص نے داعی کی دعوت قبول نہ کی تو وہ گھر میں داخل ہوا نہ کھانا کھایا اور سردار بھی اس پر ناراض ہوا۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ، سردار ہے، محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم داعی ہیں، گھر سے مراد اسلام اور دسترخوان سے مراد جنت ہے۔ اس حدیث کو دارمی نے بیان کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 161]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه الدارمي (7/1 ح 11)
٭ عباد بن منصور ضعيف مدلس و عنعن والحديث السابق (144) يغني عنه .»


قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف

5.2. انکار حدیث کرنے والے
حدیث نمبر: 162
‏‏‏‏وَعَن أبي رَافع وَغَيره رَفعه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ أَمر مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة. وَقَالَ التِّرْمِذِيّ حسن صَحِيح
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرا کوئی امر آئے، جس کے متعلق میں نے حکم دیا ہو یا میں نے اس سے منع کیا ہو، تو وہ شخص یوں کہے: میں (اسے) نہیں جانتا، ہم نے جو کچھ اللہ کی کتاب میں پایا، ہم اس کی اتباع کریں گے۔ اس حدیث کو احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 162]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (8/6 ح 24362، أطراف المسند 6/ 218) و أبو داود (605) والترمذي (2663 وقال: حسن) و ابن ماجه (13) والبيهقي في دلائل النبوة (1/ 25، 6/ 549) [و صححه ابن حبان (الموارد: 13) والحاکم علٰي شرط الشيخين (1/ 108، 109) ووافقه الذهبي .] »


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 163
‏‏‏‏وَعَن الْمِقْدَام بن معدي كرب عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنه قَالَ: «أَلا إِنِّي أُوتيت الْكتاب وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ الله كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمُ لحم الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبع وَلَا لُقَطَةُ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يُقْرُوهُ فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ» رَوَاهُ -[58]- أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى الدَّارِمِيُّ نَحْوَهُ وَكَذَا ابْنُ مَاجَهْ إِلَى قَوْلِهِ: «كَمَا حَرَّمَ الله»
سیدنا مقداد بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سن لو، مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل عطا کی گئی ہے، سن لو، قریب ہے کہ کوئی شکم سیر شخص اپنی مسند پر یوں کہے: تم اس قرآن کو لازم پکڑو پس تم جو چیز اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور تم جو چیز اس میں حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو، حالانکہ اللہ کے رسول صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سن لو، پالتو گدھے، کچلی والے درندے اور ذمی کی گری پڑی کوئی چیز، الا یہ کہ وہ خود اس سے بے نیاز ہو جائے، تمہارے لیے حلال نہیں، اور جو شخص کسی قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالے تو ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی ضیافت کریں، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں، تو پھر اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضیافت کے برابر ان سے وصول کرے۔ ۔ دارمی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسی طرح ابن ماجہ نے ( «كما حرم الله» تک روایت کیا ہے۔اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 163]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4604) والدارمي (1/ 144 ح 592) و ابن ماجه (12) [وصححه ابن حبان، الموارد: 97] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 164
‏‏‏‏وَعَن الْعِرْبَاض بن سَارِيَة قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أيحسب أحدكُم متكأ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ أَمَرْتُ وَوَعَظْتُ وَنَهَيْتُ عَنَ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ» رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَفِي إِسْنَادِهِ: أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَة المصِّيصِي قد تكلم فِيهِ
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے صرف وہی کچھ حرام قرار دیا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے، سن لو! اللہ کی قسم! میں نے بھی کچھ چیزوں کے بارے میں حکم دیا ہے، وعظ و نصیحت کی اور کچھ چیزوں سے منع کیا، بلاشبہ وہ بھی قرآن کی مثل ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے، بے شک اللہ نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا کہ تم بلا اجازت اہل کتاب (ذمیوں) کے گھروں میں داخل ہو جاؤ اور جب تک وہ تمہیں جزیہ دیتے رہیں، ان کی خواتین کو مارنا اور ان کے پھل کھانا تمہارے لیے حلال نہیں۔ ابوداؤد، اس کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی راوی ہے جس پر کلام کیا گیا ہے۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 164]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (3050)
٭ أشعث بن شعبة و ثقه ابن حبان وحده و ضعفه أبو زرعة وغيره و ضعفه راجح ولم يثبت توثيقه عن أبي داود و قال فيه الذهبي: ليس بالقوي . (ديوان الضعفاء: 473)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

5.21. وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
حدیث نمبر: 165
‏‏‏‏وَعَنْهُ: قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا قَالَ: «أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عبدا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ من يَعش مِنْكُم يرى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ إِلَّا أَنَّهُمَا لَمْ يَذْكُرَا الصَّلَاةَ
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا تو ایک بڑے بلیغ انداز میں ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور دل ڈر گئے، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی نصیحتیں معلوم ہوتی ہیں، پس آپ ہمیں وصیت فرمائیں، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ وہ (امیر) حبشی غلام ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، پس تم اس سے تمسک اختیار کرو اور داڑھوں کے ساتھ اسے پکڑ لو، اور دین میں نئے کام جاری کرنے سے بچو، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔البتہ امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 165]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (4/ 126، 127 ح 17275) و أبو داود (4607) والترمذي (2676 وقال: حسن صحيح) و ابن ماجه (43) [و صححه ابن حبان (الموارد: 102) والحاکم (1/ 95، 96) ووافقه الذهبي .] »


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

5.22. صراط مستقیم
حدیث نمبر: 166
‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا ثُمَّ -[59]- قَالَ: «هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَقَالَ هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ» ثمَّ قَرَأَ (إِن هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبعُوهُ) ‏‏‏‏الْآيَة. رَوَاهُ أَحْمد وَالنَّسَائِيّ والدارمي ‏‏‏‏ 
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا، پھر فرمایا: یہ اللہ کی راہ ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے دائیں بائیں کچھ خط کھینچے، اور فرمایا: یہ اور راہیں ہیں، اور ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان ہے جو اس راہ کی طرف بلاتا ہے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: یہ میری سیدھی راہ ہے، پس اس کی اتباع کرو۔ اس حدیث کو احمد، نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 166]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (1/ 435 ح 4142) والنسائي (في الکبري: 11174، التفسير: 194) والدارمي (67/1، 68ح 208) [و صححه ابن حبان (الموارد: 1741، 1742) والحاکم (2/ 318) و رواه ابن ماجه (11) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

5.23. ایمان کی نشانی
حدیث نمبر: 167
‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ» رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةَ وَقَالَ النَّوَوِيُّ فِي أَرْبَعِينِهِ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ رَوَيْنَاهُ فِي كتاب الْحجَّة بِإِسْنَاد صَحِيح
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائیں، امام بغوی نے شرح السنہ میں اسے روایت کیا ہے۔ امام نووی نے اربعین میں فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے اور ہم نے اسے کتاب الحجہ میں صحیح سند کےساتھ روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 167]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (1/ 212، 213 ح 104) و النووي في الأربعين (41) [و قوام السنة في کتاب الحجة (1/ 251 ح 103) ]
٭ هشام بن حسان مدلس و عنعن و أما نعيم بن حماد فثقة صدوق کما حققته في ’’ارشاد العباد في توثيق نعيم بن حماد‘‘ وحديثه لا ينزل عن درجة الحسن أبدًا في غير ما أنکر عليه و من تکلم فيه فقد أخطأ ولا بن رجب الحنبلي علل باطلة في تضعيف ھذا الحديث، في کتابه ’’جامع العلوم والحکم‘‘ أجبت عنھا في رسالة خاصة والحمد للّٰه .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

5.24. سنت کو زندہ کرنے کا ثواب
حدیث نمبر: 168
‏‏‏‏وَعَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُورِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لَا يَرْضَاهَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ من أوزارهم شَيْئا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری کسی ایسی سنت کا احیا کیا، جسے میرے بعد ترک کر دیا گیا، تو اسے بھی، اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا اور ان ��ے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی، اور جس نے بدعت و ضلالت کو جاری کیا جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے، تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 168]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2677 وقال: ھذا حديث حسن) [و ابن ماجه: 209 ببعض الاختلاف وانظر الحديث الآتي: 169]
٭ فيه کثير بن عبد الله العوفي: ضعيف جدًا متھم بالکذب، ضعفه الجمهور و أخطأ من قواه .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا

حدیث نمبر: 169
‏‏‏‏وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے یہ روایت کثیر بن عبداللہ بن عمرو عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے بیان کی ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 169]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (210)
٭ فيه کثير بن عبد الله بن عوف ضعيف جدًا متھم، انظر الحديث السابق: 168»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا


Previous    15    16    17    18    19    20    21    22    Next