الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
5.02. بدعت گمراہی ہے
حدیث نمبر: 141
‏‏‏‏وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حمدوثنا اور صلوۃ و سلام کے بعد، سب سے بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین طریقہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طریقہ ہے، بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کیے جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 141]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (43/ 867) [و زاد النسائي (3/ 189، 188 ح 1579) ’’و کل ضلالة في النار‘‘ وسنده سند مسلم.] »


قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (43/ 867) [و زاد النسائي (3/ 189

5.03. تین بدبخت لوگ
حدیث نمبر: 142
‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى الله ثَلَاثَة ملحد فِي الْحرم وميتغ فِي الْإِسْلَام سنة الْجَاهِلِيَّة ومطلب دم امرىء بِغَيْر حق ليهريق دَمه» رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ اللہ کو سخت ناپسندیدہ ہیں، حرم میں ظلم و ناانصافی کرنے والا، اسلام میں، جاہلیت کا طریقہ تلاش کرنے والا اور بڑی جدوجہد کے بعد کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 142]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (6882)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

5.04. جنت میں جانے سے انکار کرنے والا
حدیث نمبر: 143
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى. قِيلَ: وَمَنْ أَبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فقد أَبى" رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری ساری امت جنت میں جائے گی بجز اس شخص کے جس نے انکار کیا۔ عرض کیا گیا، کس نے انکار کیا؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نےمیری نافرمانی کی گویا اس نے انکار کر دیا۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 143]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (7280)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

5.05. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
حدیث نمبر: 144
‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله يَقُول جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِم فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مثلا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ -[52]- دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبِ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يفقهها فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَة وَالْقلب يقظان فَقَالُوا فالدار الْجنَّة والداعي مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَمن أطَاع مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد أطَاع الله وَمن عصى مُحَمَّدًا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد عصى الله وَمُحَمّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فرق بَين النَّاس. رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کچھ فرشتے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ سو رہے تھے، انہوں نے کہا: تمہارے اس ساتھی کی ایک مثال ہے، وہ مثال ان کے سامنے بیان کر دو، ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں، جبکہ بعض نے کہا: بے شک آنکھیں سوئی ہوئی ہیں لیکن دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا: ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا، اس میں دسترخوان لگایا اور ایک داعی کو بھیجا، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا، اور جس نے داعی کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوا نہ دسترخوان سے کھانا کھایا، پھر انہوں نے کہا: اس کی (مزید) وضاحت کردو تاکہ وہ اسے سمجھ سکیں، پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا: آنکھ سوئی ہوئی ہے اور دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا: گھر، جنت ہے، داعی، محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ پس جس شخص نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 144]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (7281)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

5.06. اس کا نام اسلام ہے
حدیث نمبر: 145
‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَة رَهْط إِلَى بيُوت أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أخبروا كَأَنَّهُمْ تقالوها فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أحدهم أما أَنا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْل أبدا وَقَالَ آخر أَنا أَصوم الدَّهْر وَلَا أفطر وَقَالَ آخر أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مني»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، تین اشخاص نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس آئے، جب انہیں اس کے متعلق بتایا گیا، تو گویا انہوں نے اسے کم محسوس کیا، چنانچہ انہوں نے کہا: ہماری نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا نسبت؟ اللہ نے تو ان کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں، ان میں سے ایک نے کہا: میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے اجتناب کروں گا اور میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آئے اور پوچھا: تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اس طرح، اس طرح کہا ہے، اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں، پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 145]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5063) و مسلم (5/ 1403)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 146
‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَرَخَّصَ فِيهِ فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لأعلمهم بِاللَّه وأشدهم لَهُ خشيَة»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کوئی کام کیا، پھر آپ نے اس میں رخصت دے دی تو کچھ لوگوں نے رخصت کو قبول کرنے سے اجتناب کیا، پس رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بارے میں پتہ چلا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا، اللہ کی حمد بیان کی، پھر فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ اس سے دور رہتے ہیں، اللہ کی قسم! میں اللہ کے متعلق ان سے زیادہ جانتا ہوں، اور اس سے ان سے زیادہ ڈرتا ہوں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 146]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6101) و مسلم (127/ 2356)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

5.07. دنیاوی امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے کی شرعی حیثیت
حدیث نمبر: 147
‏‏‏‏وَعَن رَافع بن خديج قَالَ: قَدِمَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهم يأبرون النَّخْلَ فَقَالَ: «مَا تَصْنَعُونَ» قَالُوا كُنَّا نَصْنَعُهُ قَالَ «لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا» -[53]- فَتَرَكُوهُ فنفضت قَالَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْي فَإِنَّمَا أَنا بشر» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ (اہل مدینہ) کھجوروں کی پیوندکاری کیا کرتے تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسے ہی کرتے آ رہے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم (پیوندکاری) نہ کرو تو شاید تمہارے لیے بہتر ہو۔ انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا تو اس سے پیداوار کم ہو گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے اس کے متعلق آپ سے بات کی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں، جب میں تمہیں تمہارے دین کے کسی معاملے کے بارے میں تمہیں حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو، اور جب میں اپنی رائے سے کسی چیز کے متعلق تمہیں کوئی حکم دوں تو میں ایک انسان ہوں۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 147]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (140 / 2362)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

5.08. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
حدیث نمبر: 148
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمًا فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنِي وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَاءَ النَّجَاءَ فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوا فَانْطَلَقُوا عَلَى مَهْلِهِمْ فَنَجَوْا وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ وَمثل من عَصَانِي وَكذب بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ»
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اور جس چیز کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے اس کی مثال، اس شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور اس نے کہا: میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں واضح اور حقیقی طور پر آگاہ کرنے والا ہوں، لہذا تم جلدی سے بچاؤ کر لو، پس اس کی قوم کا ایک گروہ اس کی بات مان کر سرشام اطمینان کے ساتھ روانہ ہو گیا، اور وہ بچ گیا، جبکہ ان کے ایک گروہ نے اس شخص کی بات کو جھٹلایا اور اپنی جگہ پر ڈٹے رہے تو صبح ہوتے ہی اس لشکر نے ان پر دھاوا بول دیا اور انہیں مکمل طور پر ختم کر دیا، پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور میری لائی ہوئی شریعت کی اتباع کی، اور اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے حق کی تکذیب کی۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 148]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7283) و مسلم (16/ 2283)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 149
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِنَّمَا مثلي وَمثل النَّاس كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حوله جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّار يقعن فِيهَا وَجعل يحجزهن ويغلبنه فيقتحمن فِيهَا فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنْتُمْ يقتحمون فِيهَا» . هَذِهِ رِوَايَةُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوَهَا وَقَالَ فِي آخرهَا: -[54]-" فَذَلِكَ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ: هَلُمَّ عَنِ النَّارِ هَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُونِي تَقَحَّمُونَ فِيهَا"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس جب اس (آگ) نے اپنے اردگرد کو روشن کر دیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے حشرات وغیرہ اس میں گرنا شروع ہو گئے، اور وہ شخص انہیں روکنے لگا لیکن وہ بزور اس میں گرنے لگے، پس میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں جبکہ تم بزور اسی میں گر رہے ہو۔ یہ بخاری کی روایت ہے اور مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اور تمہاری مثال اس طرح ہے کہ میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا رہا ہوں، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ، لیکن تم مجھ سے بزور اس میں گر رہے ہو۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 149]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6483) و مسلم (18 / 2284)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 150
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعلم كَمثل الْغَيْث الْكثير أصَاب أَرضًا فَكَانَ مِنْهَا نقية قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاس فَشَرِبُوا وَسقوا وزرعوا وأصابت مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ»
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے جو ہدایت اور علم دے کر مجھے مبعوث کیا ہے، وہ کسی زمین پر برسنے والی موسلادھار بارش کی طرح ہے، پس اس زمین کا ایک ٹکڑا بہت اچھا تھا، اس نے پانی کو قبول کیا اور اس نے بہت سا گھاس اور سبزہ اگایا، اور اس زمین کا کچھ ٹکڑا سخت تھا، اس نے پانی کو روک لیا، پس اللہ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، لوگوں نے خود پیا، جانوروں کو پلایا اور آب پاشی کی، جبکہ زمین کا ایک ٹکڑا صاف چٹیل تھا، وہاں بارش ہوئی تو وہ پانی روکتی ہے نہ سبزہ اگاتی ہے، پس یہی مثال اس شخص کی ہے جسے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ عطا کی گئی، اور اللہ نے جو تعلیمات دے کر مجھے مبعوث فرمایا ان سے اسے فائدہ پہنچایا، پس اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے (ازراہ تکبر) اس کی طرف سر نہ اٹھایا اور اللہ نے جو ہدایت دے کر مجھے مبعوث فرمایا اسے قبول نہ کیا۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 150]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (79) و مسلم (15/ 2282)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next