الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
4.07. کافر کے لیے عذاب قبر
حدیث نمبر: 134
‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «يُسَلط عَلَى الْكَافِرِ فِي قَبْرِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ تِنِّينًا تنهشه وتلدغه حَتَّى تقوم السَّاعَة وَلَو أَنَّ تِنِّينًا مِنْهَا نَفَخَ -[49]- فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ خَضِرًا» . رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ نَحْوَهُ وَقَالَ: «سَبْعُونَ بدل تِسْعَة وَتسْعُونَ»
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر پر، اس کی قبر میں، ننانوے اژدھا مسلط کر دیے جاتے ہیں، وہ قیام قیامت تک اسے ڈستے رہیں گے، اگر ان میں سے ایک اژدھا زمین پر پھونک مار دے تو زمین کسی قسم کا سبزہ نہ اگائے۔ اس حدیث کو دارمی اور ترمذی نے روایت کیا ہے انہوں نے ننانوے کے بجائے ستر (اژدھا) کا ذکر کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 134]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الدارمي (1/ 331 ح 2818 وسنده حسن) والترمذي (2460 وقال: غريب) و سنده ضعيف.
انظر أنوار الصحيفة (ص 258) و حديث الدارمي يغني عنه . قلت: دراج صدوق و حديثه عن أبي الھيثم حسن لذاته .»


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

ج. الفصل الثالث
حدیث نمبر: Q135
4.08. سعد بن معاذ کے لیے عذاب قبر کا تنگ اور کشادہ ہونا
حدیث نمبر: 135
‏‏‏‏عَن جَابر بن عبد الله قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ توفّي قَالَ فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ سَبَّحَتْ ثُمَّ كَبَّرْتَ قَالَ: «لقد تضايق على هَذَا العَبْد الصَّالح قَبره حَتَّى فرجه الله عز وَجل عَنهُ» . رَوَاهُ أَحْمد
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ان کے جنازے کے لیے گئے، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور انہیں قبر میں رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی گئی تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تسبیح بیان کی اور ہم نے بھی طویل تسبیح بیان کی، پھر آپ نے اللہ اکبر پڑھا تو ہم نے بھی اللہ اکبر پڑھا، عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! آپ نے تسبیح کیوں بیان کی، پھر آپ نے تکبیر بیان کی، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس صالح بندے پر اس کی قبر تنگ ہو گئی تھی، حتیٰ کہ اللہ نے اسے کشادہ کر دیا۔ اس حدیث کو ابوداؤ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 135]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (3/ 360 ح 14934)
٭ محمود ويقال محمد بن عبد الرحمٰن بن عمرو بن الجموح: ثقة، وثقه أبو زرعة الرازي (کتاب الجرح والتعديل 316/7) و ابن حبان (5/ 373) و باقي السند حسن .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 136
‏‏‏‏وَعَن ابْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ)وہ شخص ہے جس کی خاطر عرش لرز گیا، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے اور اس کی نماز جنازہ میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی، لیکن اسے بھی (قبر میں) دبایا گیا پھر ان کی قبر کو کشادہ کر دیا گیا۔ اس حدیث کو نسائى نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 136]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه النسائي (4/ 100، 101 ح 2057)
٭ وقال الذھبي: ھذه الضمة ليست من عذاب القبر في شئ، بل ھو أمر يجده المؤمن کما يجد ألم فقد ولده و حميمه في الدنيا و کما يجد من ألم مرضه و ألم خروج نفسه ... (سير أعلام النبلاء 290/1)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

4.09. قبر کا فتنہ
حدیث نمبر: 137
‏‏‏‏عَن أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقول قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذكر فتْنَة الْقَبْر الَّتِي يفتتن فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ هَكَذَا وَزَادَ النَّسَائِيُّ: حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَكَنَتْ -[50]- ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا من فتْنَة الدَّجَّال»
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فتنہ قبر کا ذکر فرمایا جس میں آدمی کو آزمایا جائے گا، پس جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا ذکر فرمایا تو مسلمان زور سے رونے لگے۔ امام نسائی نے اضافہ نقل کیا ہے: یہ رونا میرے اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کلام سمجھنے کے مابین حائل ہو گیا، جب ان کا یہ رونا اور شور تھما تو میں نے اپنے پاس والے ایک آدمی سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے کلام کے آخر پر کیا فرمایا؟ اس نے بتایا: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ تم قبروں میں فتنہ دجال کے قریب قریب آزمائے جاؤ گے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 137]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (1373) والنسائي (4/ 103، 104 ح 2064)»


قال الشيخ زبير على زئي: رواه البخاري (1373) والنسائي (4/ 103

4.1. قبر کے اندرونی مناظر
حدیث نمبر: 138
‏‏‏‏وَعَنْ جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مَثَلَتْ لَهُ الشَّمْسُ عِنْدَ غُرُوبِهَا فَيَجْلِسُ يَمْسَحُ عَيْنَيْهِ وَيَقُولُ: دَعونِي أُصَلِّي". رَوَاهُ ابْن مَاجَه
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اسے سورج ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے وہ قریب الغروب ہو، پس وہ بیٹھ جاتا ہے اور اپنی آنکھیں ملتے ہوئے کہتا ہے: مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 138]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (4272) [و ابن حبان، الموارد: 779]
٭ سليمان الأعمش مدلس و عنعن وللحديث شاھد عند البيهقي في اثبات عذاب القبر (64 بتحقيقي) بدون قوله: ’’ويمسح عينيه‘‘ و صححه ابن حبان (الموارد: 781) والحاکم علٰي شرط مسلم (1/ 379، 380) ووافقه الذهبي وسنده حسن کما قال الهيثمي في مجمع الزوائد (52/3) فالحديث حسن دون قوله: ’’ويمسح عينيه‘‘ .»


قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف ، حسن (دون قول: يَمْسَحُ عَيْنَيْهِ)

حدیث نمبر: 139
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيَجْلِسُ الرَّجُلُ الصَّالح فِي قَبره غير فزع وَلَا مشعوف ثمَّ يُقَال لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ فَيَقُولُ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يُحَطِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ ثمَّ يفرج لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَال لَهُ هَذَا مَقْعَدك وَيُقَال لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِن شَاءَ الله وَيجْلس الرجل السوء فِي قَبره فَزعًا مشعوفا فَيُقَال لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قولا فقلته فيفرج لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْك ثمَّ يفرج لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يُحَطِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ عَلَى الشَّك كنت وَعَلِيهِ مت وَعَلِيهِ تبْعَث إِن شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میت قبر کی طرف جاتی ہے تو (صالح) آدمی کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے، پھر کہا جاتا ہے، تم کس دین پر تھے؟ وہ کہے گا اسلام پر، اس سے پوچھا جائے گا: یہ آدمی کون تھے؟ وہ کہے گا: اللہ کے رسول محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، وہ اللہ کی طرف سے معجزات لے کر ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، اس سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اللہ کو دیکھا؟ وہ جواب دے گا: کسی کے لیے (دنیا میں) اللہ کو دیکھنا صحیح و لائق نہیں، (اس کے بعد) اس کے لیے جہنم کی طرف ایک سوراخ کر دیا جاتا ہے، تو وہ اس کی طرف دیکھتا ہے، کہ جہنم کے بعض حصے بعض کو کھا رہے ہیں، اسے کہا جاتا ہے، اسے دیکھو جس سے اللہ نے تمہیں بچا لیا، پھر اس کے لیے جنت کی طرف ایک سوراخ کر دیا جاتا ہے تو وہ اس کی اور اس کی نعمتوں کی رونق و خوبصورتی کو دیکھتا ہے، تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہارا مسکن ہے، تم یقین پر تھے، اسی پر تم فوت ہوئے اور ان شاءاللہ تم اسی پر اٹھائے جاؤ گے، پھر برے آدمی کو اس کی قبر میں بٹھایا جائے گا تو وہ بہت گھبرایا سا ہو گا، اس سے پوچھا جائے گا: تم کس دین پر تھے؟ تو وہ کہے گا: میں نہیں جانتا، پھر اس سے پوچھا جائے گا: یہ شخص کون تھے؟ وہ کہے گا: میں نے لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنا تو میں نے بھی ویسے ہی کہہ دیا، (اس کے بعد) اس کے لیے جنت کی طرف ایک سوراخ کر دیا جائے گا، تو وہ اس کی اور اس کی نعمتوں کی رونق و خوبصورتی کو دیکھے گا، تو اسے کہا جائے گا: اس کو دیکھو جسے اللہ نے تم سے دور کر دیا، پھر اس کے لیے جہنم کی طرف ایک سوراخ کر دیا جائے گا تو وہ اسے دیکھے گا کہ اس کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے، اسے کہا جائے گا یہ تیرا ٹھکانہ ہے، تو شک پر تھا، اسی پر فوت ہوا اور ان شاءاللہ اسی پر اٹھایا جائے گا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 139]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه ابن ماجه (4268) [وصححه البوصيري] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

5. --
حدیث نمبر: Q140-2
الف . الفصل الاول
حدیث نمبر: Q140
5.01. بدعت کا رد
حدیث نمبر: 140
‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رد»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسا کام جاری کیا جو کہ اس میں نہیں وہ مردود ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 140]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2697) و مسلم (17/ 1718)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next