الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
4.01. آیت مبارکہ کا مفہوم
حدیث نمبر: 125
عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْمُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ (يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَة) ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِت) ‏‏‏‏نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ يُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبك؟ فَيَقُول: رَبِّي الله ونبيي مُحَمَّد ‏‏‏‏ 
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب مسلمان سے قبر میں (اس کے رب، نبی اور دین کے بارے میں) سوال کیا جائے وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ یہ کہنا اللہ کے اس فرمان کے مطابق ہے: اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں سچی بات پر دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور ایک روایت میں نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: «يُثَبّتُ اللهُ الَّذِيْنَ امَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّبِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ» عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی، پوچھا جائے گا: تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا: میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) ہیں۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 125]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4699) و مسلم (2871/ 73) والرواية الثانية له .»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

4.02. قبر میں سوال جواب
حدیث نمبر: 126
‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنه حَدثهمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجنَّة فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَة وَذكر لنا أَنه يفسح لَهُ فِي قَبره ثمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيث أنس قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثقلَيْن» وَلَفظه للْبُخَارِيّ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں، تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ (اسی اثنا میں) دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں: تم اس شخص محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ جو مومن ہے، تو وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اسے کہا جاتا ہے: جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو، اللہ نے اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھتا ہے، رہا منافق و کافر شخص، تو اسے بھی کہا جاتا ہے۔ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، میں وہی کچھ کہتا تھا جو لوگ کہا کرتے تھے، اسے کہا جائے گا: تم نے (حق بات) سمجھنے کی کوشش کی نہ پڑھنے کی، اسے لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ ایک ساتھ مارا جائے گا تو وہ چیختا چلاتا ہے جسے جن و انس کے سوا اس کے قریب ہر چیز سنتی ہے۔ بخاری، مسلم۔ اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور الفاظ بخاری کے ہیں۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 126]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1374) و مسلم (2870/ 70)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 127
‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثك الله يَوْم الْقِيَامَة»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے۔ تو صبح و شام اس کا ٹھکانہ اسے دکھایا جاتا ہے۔ اگر تو وہ جنتی ہے تو وہ اہل جنت سے ہے، اور اگر وہ جہنمی ہے تو پھر وہ اہل جہنم میں سے ہے، پس اسے کہا جائے گا: یہ تمہارا ٹھکانہ ہے حتیٰ کہ اللہ قیامت کے دن تمہیں اس کے لیے دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 127]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1379) و مسلم (65/ 2866)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

4.03. عذاب قبر کا اثبات
حدیث نمبر: 128
‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ: «نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْر قَالَت عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعد صلى صَلَاة إِلَّا تعوذ من عَذَاب الْقَبْر»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی تو اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور ان سے کہا: اللہ آپ کو عذاب قبر سے بچائے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے عذاب قبر کے بارے میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ہاں، عذاب قبر ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے دیکھا کہ آپ اس کے بعد جب بھی نماز پڑھتے تو عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 128]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1372) و مسلم (125/ 586)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 129
‏‏‏‏عَن زيد بن ثَابت قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرُ سِتَّةٍ أَو خَمْسَة أَو أَرْبَعَة قَالَ كَذَا كَانَ يَقُول الْجريرِي فَقَالَ: «من يعرف أَصْحَاب هَذِه الأقبر فَقَالَ رجل أَنا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَاءِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاك فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَاب النَّار فَقَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّه من عَذَاب الْقَبْر قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس اثنا میں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر پر سوار بنونجار کے باغ میں تھے جبکہ ہم بھی آپ کے ساتھ تھے کہ اچانک خچر بدکا، قریب تھا کہ وہ آپ کو گرا دیتا، وہاں پانچ، چھ قبریں تھیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان قبروں والوں کو کون جانتا ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا، میں: آپ نے فرمایا: وہ کب فوت ہوئے تھے؟ اس نے کہا: حالت شرک میں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اس امت کے لوگوں کا ان کی قبروں میں امتحان لیا جائے گا، اگر ایسے نہ ہوتا کہ تم دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ عذاب قبر تمہیں سنا دے جو میں سن رہا ہوں، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا رخ انور ہماری طرف کرتے ہوئے فرمایا: جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ انہوں نے عرض کیا: ہم عذاب جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عذ��ب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ انہوں نے کہا: ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ انہوں نے کہا: ہم ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ انہوں نے کہا: ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 129]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (67/ 2867)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

ب. الفصل الثاني
حدیث نمبر: Q130
4.04. منکر نکیر کے سوال اور قبر کا عذاب
حدیث نمبر: 130
‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَتَاهُ مَلَكَانِ -[47]- أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرجل فَيَقُول مَا كَانَ يَقُول هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعت النَّاس يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فتلتئم عَلَيْهِ فتختلف فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ الله من مضجعه ذَلِك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ تو سیاہ فام نیلی آنکھوں والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ پس وہ کہتے ہیں؟ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: ہمیں پتہ تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر اس کی قبر کو طول و عرض میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے لیے اس میں روشنی کر دی جاتی ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: سو جاؤ، وہ کہتا ہے: میں اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ انہیں بتا آؤں، لیکن وہ کہتے ہیں دلہن کی طرح سو جا، جسے اس کے گھر کا عزیز ترین فرد ہی بیدار کرتا ہے، حتیٰ کہ اللہ اسے اس کی خواب گاہ سے بیدار کرے گا، اور اگر وہ منافق ہوا تو وہ کہے گا: میں نے لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنا، تو میں نے بھی ویسے ہی کہہ دیا، میں کچھ نہیں جانتا، وہ فرشتے کہتے ہیں: ہمیں پتہ تھا کہ تم یہی کہو گے، پس زمین سے کہا جاتا ہے: اس پر تنگ ہو جا، وہ اس پر تنگ ہو جاتی ہے۔ اس سے اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر آ جائیں گی، پس اسے اس میں مسلسل عذاب ہوتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ اس کی اس خواب گاہ سے اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (1071 وقال: حسن غريب .) [وصححه ابن حبان (الإحسان: 3107) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 131
عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ رَبِّيَ اللَّهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ ديني الْإِسْلَام فَيَقُولَانِ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ قَالَ فَيَقُول هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولَانِ وَمَا يُدْرِيكَ فَيَقُولُ قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ زَاد فِي حَدِيث جرير فَذَلِك قَول الله عز وَجل (يثبت الله الَّذين آمنُوا بالْقَوْل الثَّابِت) ‏‏‏‏الْآيَة ثمَّ اتفقَا قَالَ فينادي مُنَاد من السَّمَاء أَن قد صدق عَبدِي فأفرشوه مِنَ الْجَنَّةِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ وألبسوه من الْجنَّة قَالَ فيأتيه من روحها وطيبها قَالَ وَيفتح لَهُ فِيهَا مد بَصَره قَالَ وَإِن الْكَافِر فَذكر مَوته قَالَ وتعاد رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ مَنْ رَبُّكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي -[48]- فَيَقُولَانِ لَهُ مَا دِينُكَ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ فَيَقُولُ هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ كَذَبَ فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ قَالَ فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا قَالَ وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ ثمَّ يقيض لَهُ أعمى أبكم مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جبل لصار تُرَابا قَالَ فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمغْرب إِلَّا الثقلَيْن فَيصير تُرَابا قَالَ ثمَّ تُعَاد فِيهِ الرّوح» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد ‏‏‏‏ 
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں، تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ آدمی جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے، وہ کون تھے؟ وہ جواب دے گا وہ اللہ کے رسول ہیں، وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: تمہیں کس نے بتایا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، تو میں اس پر ایمان لے آیا اور تصدیق کی، اس کا یہ جواب دینا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے: اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں، سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ فرمایا: آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، اسے جنتی بچھونا بچھا دو، جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، وہ کھول دیا جاتا ہے، وہاں سے معطر بادنسیم اس کے پاس آتی ہے، اور اس کی حد نگاہ تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافر کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے، دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: وہ شخص جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے، کون تھے؟ پھر وہی جواب دیتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے: اس نے جھوٹ بولا، لہذا اسے جہنم سے بستر بچھا دو۔ جہنم سے لباس پہنا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو، فرمایا: جہنم کی حرارت اور وہاں کی گرم لو اس تک پہنچے گی، فرمایا: اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر نکل جاتی ہیں۔ پھر ایک اندھا اور بہرا داروغہ اس پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جس کے پاس لوہے کا بڑا ہتھوڑا ہوتا ہے، اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے، وہ اس کے ساتھ اسے مارتا ہے تو جن و انس کے سوا مشرق و مغرب کے مابین موجود ہر چیز اس مار کو سنتی ہے، وہ مٹی ہو جاتا ہے، تو پھر روح کو دوبارہ اس میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے رویت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، دون قوله: ’’فيصير ترابًا ثم يعاد فيه الروح‘‘ لأن فيه الأعمش مدلس و لم يصرح بالسماع في ھذا اللفظ .
رواه أحمد (4/ 287، 288 ح 18733) و أبو داود (3212، 4753) [و رواه الحاکم (37/1. 38 ح 107) و الطبراني في الأحاديث الطوال (المعجم الکبير 25/ 238. 240 ح 25) و سنده حسن و صححه البيهقي في شعب الإيمان: 395] »


قال الشيخ زبير على زئي: حسن، دون قوله: فيصير ترابًا ثم يعاد فيه الروح لأن فيه الأعمش مدلس و لم يصرح بالسماع في هذا اللفظ.

4.05. قبر سے زیادہ وحشت ناک منظر کوئی نہیں
حدیث نمبر: 132
‏‏‏‏وَعَن عُثْمَان رَضِي الله عَنهُ أَنه إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ فَقِيلَ لَهُ تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَيْت منْظرًا قطّ إِلَّا الْقَبْر أَفْظَعُ مِنْهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيث غَرِيب
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب آپ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو ہاں اس قدر روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہو جاتی، آپ سے پوچھا گیا، آپ جنت اور جہنم کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں روتے مگر قبر کا ذکر کر کے روتے ہو؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک قبر منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے، پس اگر اس سے بچ گیا تو اس کے بعد جو منازل ہیں وہ اس سے آسان تر ہیں، اور اگر اس سے نجات نہ ہوئی تو اس کے بعد جو منازل ہیں وہ اس سے زیادہ سخت ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے قبر سے زیادہ سخت اور برا منظر کبھی نہیں دیکھا۔ اس حدیث کو ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (2308 وقال: حسن غريب .) و ابن ماجه (4267) [وصححه الحاکم والذهبي في تلخيص المستدرک (1/ 371، 4/ 330. 331) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

4.06. مسلمان بھائی کے لئے ثابت قدمی کی دعا
حدیث نمبر: 133
‏‏‏‏وَعَن عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ثُمَّ سَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے: اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو، اس کے لیے (سوال و جواب کے موقع پر) ثابت قدمی کی درخواست کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 133]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (3221) [و صححه الحاکم 1/ 37 ووافقه الذهبي .] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن


Previous    11    12    13    14    15    16    17    18    19    Next