الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
حدیث نمبر: 108
‏‏‏‏وَعَنْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلَا تفاتحوهم» رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قدریوں کو اپنی مجلسوں میں بٹھاؤ نہ انہیں سلام کرنے میں پہل کرو (اور نہ ان سے فیصلے کراؤ اور نہ ہی ان سے مناظرہ کرو) اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 108]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4710، 4720) [وصححه ابن حبان: الموارد 1825]
٭ حکيم بن شريک مجھول الحال و ثقه ابن حبان و حده و سکت الحاکم علٰٰي حديثه (1/ 85) و لم يصححه .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

3.16. چھ قسم کے ملعون
حدیث نمبر: 109
‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ يُجَابُ: الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ -[39]- وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ لِيُعِزَّ مَنْ أَذَلَّهُ اللَّهُ وَيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّهُ اللَّهُ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحَرَمِ اللَّهِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي الْمدْخل ورزين فِي كِتَابه
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھ قسم کے لوگوں پر میں نے لعنت کی اور اللہ نے بھی ان پر لعنت کی، اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے، اللہ کی کتاب میں اضافہ کرنے والا، اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا، طاقت کے بل بوتے پر مسلط ہونے والا شخص تاکہ وہ کسی ایسے شخص کو معزز بنائے جسے اللہ نے ذلیل بنایا ہو، اور کسی ایسے شخص کو ذلیل بنا دے جسے اللہ نے معزز بنایا ہو، اللہ کے حرم کی بے حرمتی کرنے والا، میری اولاد کی بے حرمتی کرنے والا اور میری سنت کو ترک کرنے والا۔  اس حدیث کو بہیقی نے مدخل میں اور رزین نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 109]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه البيهقي في المدخل (لم أجده، و رواه في شعب الإيمان: 4010، 4011) و رزين في کتابه (لم أجده) [والترمذي (2154) و صححه ابن حبان (الموارد: 52) والحاکم (1/ 36 علٰي اختلاف في السند) ووافقه الذهبي.] »


قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 110
‏‏‏‏وَعَن مطر بن عكام قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيّ
مطر بن عکام بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے کے متعلق فیصلہ فرماتا ہے کہ اسے فلاں جگہ موت آ جائے تو وہ اس شخص کے لیے اس جگہ کوئی ضرورت پیدا کر دیتا ہے۔ اس حدیث کو احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 110]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (5/ 227 ح 22332) والترمذي (2146 وقال: ھذا حديث حسن غريب و 2147)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 111
‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَرَارِيُّ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: «مِنْ آبَائِهِمْ» . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِلَا عَمَلٍ؟ قَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ» . قُلْتُ فذاراري الْمُشْرِكِينَ؟ قَالَ: «مِنْ آبَائِهِمْ» . قُلْتُ: بِلَا عَمَلٍ؟ قَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مومنوں کے بچے (ان کے بارے میں کیا حکم ہے)؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے آباء کے ساتھ ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عمل کے بغیر ہی، آپ نے فرمایا: انہوں نے جو کرنا تھا اللہ اس سے بخوبی واقف ہے۔ میں نے عرض کیا: تو مشرکین کے بچے؟ آپ نے فرمایا: وہ بھی اپنے آباء کے ساتھ میں نے عرض کیا، عمل کے بغیر ہی، آپ نے فرمایا: انہوں نے جو کرنا تھا، اللہ اس سے بخوبی واقف تھا۔  اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 111]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4712) [والآجري في الشريعة ص 195 ح 405]
٭ بقية: صرح بالسماع و تابعه محمد بن حرب، وللحديث طريق آخر عند أحمد (4/ 76)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

3.17. بچوں کو زندہ دفن کرنے والا
حدیث نمبر: 112
‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الوائدة والموؤدة فِي النَّار". رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زندہ درگور کرنے والی اور جس کی خاطر زندہ درگور کیا گیا جہنمی ہیں۔  اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 112]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أبو داود (4717) [و ابن حبان، الموارد: 67]
٭ وللحديث شواهد .»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

ج. الفصل الثالث
حدیث نمبر: Q113
3.18. مقدر لکھا جا چکا
حدیث نمبر: 113
‏‏‏‏عَن أبي الدرداد قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَغَ إِلَى كُلِّ عَبْدٍ مِنْ خَلْقِهِ مِنْ خَمْسٍ: مِنْ أَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَمَضْجَعِهِ وَأَثَرِهِ وَرِزْقِهِ". رَوَاهُ أَحْمَدُ
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ عزوجل ہر بندے کی تخلیق سے متعلق اس کی پانچ چیزوں، اس کی عمر، اس کے عمل، اس کے مرنے اور دفن ہونے کی جگہ، اس کے نقوش اور اس کے رزق سے فارغ ہو چکا۔  اس حدیث کو احمد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 113]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (5/ 197 ح 22066 و 22065) [وابن أبي عاصم في السنة: 303 وصححه ابن حبان، الموارد: 1811]
٭ فرج بن فضالة: تابعه مروان بن محمد وللحديث طرق .»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

3.19. مسئلہ تقدیر پر گفتگو ایک نا پسندیدہ امر
حدیث نمبر: 114
‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ تَكَلَّمَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقَدَرِ سُئِلَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ لم يسْأَل عَنهُ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے تقدیر کے متعلق ذرا بھی بات کی تو روز قیامت اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی اور جس نے اس کے متعلق کوئی بات نہ کی اس سے باز پرس نہیں ہو گی۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 114]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (84)
٭ و قال البوصيري: ’’ھذا إسناده ضعيف لا تفاقھم علٰي ضعف يحيي بن عثمان، وشيخه (يحيي بن عبد الله بن أبي مليکة) لين الحديث .‘‘»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

3.2. مسئلہ تقدیر پر تشکیک کفر کی علامت
حدیث نمبر: 115
‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ وَقَعَ فِي -[41]- نَفْسِي شَيْء من الْقدر فَحَدثني بِشَيْء لَعَلَّ الله أَن يذهبه من قلبِي قَالَ لَو أَن الله عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ فَقَالَ مثل ذَلِك قَالَ ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
سیدنا ابن دیلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں ابی بن کعب کے پاس آیا تو میں نے انہیں کہا: میرے دل میں تقدیر کے متعلق کچھ شبہ سا ہے، پس آپ مجھے کوئی حدیث سنائیں، امید ہے اللہ اسے میرے دل سے دور کر دے، تو انہوں نے فرمایا: اگر اللہ عزوجل آسمان اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دینے میں ظالم نہیں ہو گا، اور اگر وہ ان پر رحم فرمائے تو ان کے لیے اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اور اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا حتیٰ کہ تم تقدیر پر ایمان لے آؤ اور تم جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا وہ تم سے خطا نہیں ہو سکتا تھا اور کچھ تم سے خطا ہو گیا وہ تمہیں پہنچ نہیں سکتا تھا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر فوت ہو گئے تو تم جہنم میں جاؤ گے، ابن دیلمی بیان کرتے ہیں، پھر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح فرمایا: پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے اسی کی مثل نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے حدیث بیان کی۔  اس کو ابوداؤد، احمد، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 182، 183 ح 21922 و 5/ 185 ح 21947 و 5/ 189 ح 21992) و أبو داود (4699) و ابن ماجه (77) [و البيهقي في کتاب القضاء والقدر (200) و صححه ابن حبان (الموارد: 1817) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

3.21. منکرین تقدیر کے لیے سزا
حدیث نمبر: 116
‏‏‏‏عَن نَافِع أَن ابْن عمر جَاءَهُ رجل فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ فَقَالَ لَهُ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول يكون فِي هَذِه الْأمة أَو فِي أمتِي الشَّك مِنْهُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو اس نے کہا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے، تو انہوں نے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ اس نے بدعت ایجاد کی ہے، پس اگر تو اس نے بدعت ایجاد کی ہے تو پھر میری طرف سے اسے سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں یا اس امت میں، زمین میں دھنسنا، صورتیں مسخ ہو جانا یا آسمان سے پتھروں کی بارش ہونا ہو گا۔ اس حدیث کو ترمذی و ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 116]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (2152) و أبو داود (4613) و ابن ماجه (4061) [و تقدم طرفه: 106] »


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن


Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next