الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
3.01. مخلوقات کی تقدیر
حدیث نمبر: 79
‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَتَبَ اللَّهُ مقادير الْخَلَائق قبل أَن يخلق السَّمَوَات وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ» قَالَ: «وَكَانَ عَرْشُهُ على المَاء» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی، اور اس کا عرش پانی پر تھا۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 79]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (16 /2653) [والخطيب في تاريخ بغداد (2/ 252) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 80
‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ شَيْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّى الْعَجز والكيس» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر چیز حتیٰ کہ عجزو دانائی، تقدیر کے مطابق ہے۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 80]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (18 / 2655)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

3.02. حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ
حدیث نمبر: 81
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام عِنْدَ رَبِّهِمَا فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى قَالَ مُوسَى أَنْتَ آدَمُ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ وَأَسْكَنَكَ فِي جَنَّتِهِ ثُمَّ أَهَبَطْتَ النَّاسَ بِخَطِيئَتِكَ إِلَى الأَرْض فَقَالَ آدَمُ أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ وَأَعْطَاكَ الْأَلْوَاحَ فِيهَا تِبْيَانُ كُلِّ شَيْءٍ وَقَرَّبَكَ نَجِيًّا فَبِكَمْ وَجَدَتِ اللَّهِ كَتَبَ التَّوْرَاةَ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ قَالَ مُوسَى بِأَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ آدَمُ فَهَلْ وَجَدْتَ فِيهَا (وَعَصَى آدَمُ ربه فغوى) ‏‏‏‏قَالَ نَعَمْ قَالَ أَفَتَلُومُنِي عَلَى أَنْ عَمِلْتُ عَمَلًا كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيَّ أَنْ أَعْمَلَهُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى» . رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ 
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم اور موسیٰ ؑ نے اپنے رب کے ہاں مناظرہ و مباحشہ کیا، تو آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب رہے، موسیٰ ؑ نے فرمایا: آپ آدم ؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا، اس میں اپنی روح پھونکی، اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا، آپ کو اپنی جنت میں بسایا پھر آپ نے اپنی خطا سے لوگوں کو زمین پر اتارا، آدم ؑ نے فرمایا: آپ موسیٰ ؑ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کے لیے منتخب فرمایا، آپ کو تختیاں عطا کیں جن میں ہر چیز کا بیان ہے، آپ کو کسی واسطے کے بغیر سرگوشی کا شرف بخشا، آپ کے خیال میں میری تخلیق سے کتنا عرصہ قبل اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی ہو گی؟ موسیٰ ؑ نے فرمایا: چالیس برس، آدم ؑ نے فرمایا: کیا آپ نے اس میں یہ چیز بھی پائی: آدم ؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گئے۔؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، آدم ؑ نے فرمایا: کیا آپ مجھے ایسے عمل کرنے پر ملامت کرتے ہیں جس کا کرنا اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے بھی چالیس برس پہلے مجھ پر لازم کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آ گئے۔
 اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (15 / 2652) [و البخاري (6614 وغيره) مختصرًا .] »


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

3.03. تقدیر کا غالب آنا
حدیث نمبر: 82
‏‏‏‏عَن عبد الله بن مَسْعُود قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِق المصدوق: «إِن أحدكُم يجمع خلقه فِي بطن أمه أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثمَّ يكون فِي ذَلِك علقَة مثل ذَلِك ثمَّ يكون فِي ذَلِك مُضْغَة مثل ذَلِك ثمَّ يُرْسل الْملك فينفخ فِيهِ الرّوح وَيُؤمر بِأَرْبَع كَلِمَات بكتب رزقه وأجله وَعَمله وشقي أَو سعيد فوالذي لَا إِلَه غَيره إِن أحدكُم لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا»
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو کہ صادق و مصدوق ہیں، فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں اس طرح مکمل کی جاتی ہے کہ وہ چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے، پھر اتنی مدت جما ہوا خون رہتا ہے۔ پھر اتنی ہی مدت گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اللہ چار باتیں لکھنے کے لیے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے، پس وہ اس کا عمل، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا بد نصیب یا سعادت مند ہونا لکھتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بے شک تم میں سے کوئی شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے مابین صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ نوشتہ تقدیر اس پر غالب آ جاتا ہے تو وہ جہنمیوں کا سا کوئی عمل کر بیٹھتا ہے تو وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے، اور (اسی طرح) تم میں سے کوئی جہنمیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ نوشتہ تقدیر اس پر غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کا سا عمل کر لیتا ہے تو وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 82]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6594) و مسلم (1/ 2643) [و أبو داود (4708) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 83
‏‏‏‏وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم»
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’ـ’ بندہ جہنمیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے، دوسرا آدمی جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے، اعمال تو وہ (قابل اعتبار) ہیں جو آخری ہیں: اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 83]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6607 واللفظ له) و مسلم (179/ 112)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 84
‏‏‏‏عَن عَائِشَة أم الْمُؤمنِينَ قَالَتْ: «دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جِنَازَةِ صَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلِ السُّوءُ وَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ أَوَ غَيْرُ ذَلِكِ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وهم فِي أصلاب آبَائِهِم» . رَوَاهُ مُسلم
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک انصاری بچے کے جنازے کی دعوت دی گئی تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! جنت کی اس چڑیا کے لیے بشارت ہے، اس نے کوئی برائی کی نہ اس کا وقت پایا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کیا اس کے علاوہ کوئی بات ہے، بے شک اللہ نے جنت کے لیے کچھ لوگ پیدا فرمائے، انہیں جنت ہی کے لیے پیدا فرمایا جبکہ وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے اور (اسی طرح) جہنم کے لیے کچھ لوگ پیدا کیے، انہیں جہنم ہی کے لیے پیدا فرمایا جبکہ وہ اپنے آباء کی صلب میں تھے۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 84]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (31/ 2662)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

3.04. عمل کی اہمیت
حدیث نمبر: 85
عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَة فِي بَقِيع الْغَرْقَد فَأَتَانَا النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقعدَ وقعدنا حوله وَمَعَهُ مخصرة فَنَكس فَجعل ينكت بمخصرته ثمَّ قَالَ مَا مِنْكُم من أحد مَا من نفس منفوسة إِلَّا كتب مَكَانهَا من الْجنَّة وَالنَّار وَإِلَّا قد كتب شقية أَو سعيدة فَقَالَ رجل يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدع الْعَمَل فَمن كَانَ منا من أهل السَّعَادَة فسيصير إِلَى عمل أهل السَّعَادَة وَأما من كَانَ منا من أهل الشقاوة فسيصير إِلَى عمل أهل الشقاوة قَالَ أما أهل السَّعَادَة فييسرون لعمل السَّعَادَة وَأما أهل الشقاوة فييسرون لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ -[32]- (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصدق بِالْحُسْنَى) ‏‏‏‏الْآيَة ‏‏‏‏ 
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی جہنم میں اور جنت میں جگہ لکھ دی گئی ہے۔ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا ہم پھر اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر لیں۔ اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمل کرتے رہو، ہر ایک کو، جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، میسر کر دیا جاتا ہے، جو شخص سعادت مندوں میں سے ہو گا تو اس کے لیے اہل سعادت کے عمل آسان کر دئیے جائیں گے، اور جو شخص بد نصیبوں میں سے ہوا تو اس کے لیے بدنصیبی والے عمل آسان کر دئیے جائیں گے۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: جس کسی نے اللہ کی راہ میں دیا اور ڈرتا رہا، اور اچھی بات کی تصدیق کی، تو ہم بہت جلد اس کے لیے نیکی کی راہ آسان کر دیں گے: اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 85]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1362) و مسلم (2647/6) [و البيهقي في کتاب القضاء والقدر (47) ] »


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

3.05. قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے
حدیث نمبر: 86
‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّى وَتَشْتَهِي وَالْفَرْجُ يصدق ذَلِك كُله ويكذبه» ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: «كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا محَالة فالعينان زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ» ‏‏‏‏ 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ نے اولاد آدم پر اس کے زنا کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ ضرور پا کر رہے گا، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے جبکہ نفس تمنا اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ اور مسلم کی روایت میں ہے: اللہ نے ابن آدم پر اس کے زنا کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ ضرور پا کر رہے گا، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا بات کرنا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، ٹانگ کا زنا چل کر جانا ہے، جبکہ نفس تمنا اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 86]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (6612، 6243) و مسلم (20 / 2657)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 87
‏‏‏‏وَعَن عمرَان بن حضين: إِن رجلَيْنِ من مزينة أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشِيءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فيهم من قدر قد سَبَقَ أَوْ فِيمَا يَسْتَقْبِلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لَا بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (وَنَفْسٍ وَمَا سواهَا فألهمها فجورها وتقواها) ‏‏‏‏رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ 
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مزینہ قبیلہ کے دو آدمیوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! لوگ جو آج عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے محنت و کوشش کر رہے ہیں، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور پہلے سے جو تقدیر ہے وہ نافذ ہو چکی ہے، یا وہ اس چیز کی طرف جا رہے ہیں جو ان کے نبی ان کے پاس لے کر آئے اور ان کے خلاف حجت قائم کی؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ان کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے بارے میں نافذ ہو چکی ہے، اور اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے: اور نفس کی قسم! اور اس کی جو کچھ اس نے درست کیا، پھر بدکاری اور پرہیزگاری دونوں کی اسے سمجھ عطا کی۔  اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 87]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (10 / 2650)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 88
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ وَأَنَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي الْعَنَتَ وَلَا أَجِدُ مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ النِّسَاءَ كأَنَّهُ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الِاخْتِصَاءِ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ فَسَكَتَ عَنِّي ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ فَسَكَتَ عَنِّي ثُمَّ قُلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ فَاخْتَصِ -[33]- على ذَلِك أَو ذَر» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں جوان آدمی ہوں اور مجھے اپنے متعلق زنا کا اندیشہ ہے، جبکہ میرے پاس شادی کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، گویا کہ وہ آپ سے خصی ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں، راوی بیان کرتے ہیں، آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، پھر میں نے وہی بات عرض کی، آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر وہی عرض کی، آپ پھر خاموش رہے کوئی جواب نہ دیا، میں نے پھر وہی بات عرض کی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ! تم نے جو کچھ کرنا ہے یا تمہارے ساتھ جو کچھ ہونا ہے اس کے متعلق قلم لکھ کر خشک ہو چکا اب اس کے باوجود تم خصی ہو جاؤ یا چھوڑ دو۔  اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 88]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (5076)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح


Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next